مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ امر بالمعروف کا بیان ۔ حدیث 1051

حقیقی مفلس کون ہے

راوی:

وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أتدرون ما المفلس ؟ . قالوا المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع . فقال إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة ويأتي وقد شتم هذا وقذف هذا . وأكل مال هذا . وسفك دم هذا وضرب هذا فيعطى هذا من حسناته وهذا من حسناته فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه ثم طرح في النار . رواه مسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (صحابہ رضی اللہ عنہم سے ) فرمایا " تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ تو درہم و دینار (روپیہ پیسہ) ہو، اور نہ سامان و اسباب (یعنی انہوں نے اپنے جواب میں مفلس اس شخص کو بتایا جو مال و زر اور روپیہ و پیسہ سے تہی دست ہو جیسا کہ عام طور پر دنیا والے سمجھتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذہن اس طرف نہیں گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد دنیاوی طور پر مفلس شخص کے بارے میں پوچھنا نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوال کا تعلق اس شخص سے ہے جو آخرت کے اعتبار سے مفلس ہو) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " میری امت مرحومہ میں مفلس شخص درحقیقت وہ ہے جو قیامت کے دن میدان حشر میں (دنیا سے ) نماز ، روزہ اور زکوۃ (اور دوسری عبادتیں ) لے کر آئے ، مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی کسی کو (ناحق) مارا پیٹا تھا (غرض کہ اس نے جہاں تمام مالی و بدنی عبادتیں کی تھیں وہیں ان برائیوں کا مرتکب بھی ہوا تھا چنانچہ اس کی نیکیوں میں سے (پہلے کسی ایک مظلوم و صاحب حق کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی (اس طرح اس نے دنیا میں جس کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا ہوگا اور جس جس کو ناحق ستایا ہوگا ان سب کو الگ الگ اپنے حق کے بقدر اس کی نیکیوں میں سے دیا جائے گا یہاں تک کہ اگر اس کے ان گناہوں کا فیصلہ ہونے سے پہلے اس کی تمام نیکیاں ختم ہو جائیں گی (یعنی اگر اس کی تمام نیکیاں ان سب حق والوں کو دے دینے کے بعد بھی حقوق العباد کو تلف کرنے کی سزا پوری نہیں ہوگی) تو اس حق داروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیئے جائیں گے اور پھر اس کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم)

تشریح
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ بندوں کے حقوق کی پامالی کرنے والے کو آخرت میں نہ تو معافی ملے گی اور نہ اس کے حق میں شفاعت کام آئے گی، ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی کے لئے چاہے گا تو وہ مدعی (صاحب حق) کو اس کے مطالبہ کے مطابق اپنی نعمتیں عطا فرما کر راضی کر دے گا۔ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ مفلس اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس مال و دولت اور روپیہ پیسہ نہیں ہوتا یا بہت کم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں مفلس وہی شخص ہے جس کے بارے میں ذکر کیا گیا، چنانچہ دنیاوی مال و دولت سے تہی دست شخص کو حقیقی مفلس نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مال و دولت اور روپیہ پیسہ کا افلاس عارضی ہوتا ہے جو موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے بلکہ بسا اوقات زندگی ہی میں وہ افلاس، مال و دولت کی فراوانی میں تبدیل ہو جاتا ہے اس کے برخلاف حدیث میں جس افلاس کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی سے ہے اور اس افلاس میں مبتلا ہونے والا شخص پوری طرح ہلاک ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں