مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ امر بالمعروف کا بیان ۔ حدیث 1055

ایک آیت کے لفظ " ظلم' ' کی تشریح

راوی:

عن ابن مسعود قال لما نزلت ( الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم )
شق ذلك على أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وقالوا يا رسول اله أينا لم يظلم نفسه ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس ذاك إنما هو الشرك ألم تسمعوا قول لقمان لابنه ( يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم ؟ )
. في رواية ليس هو كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه . متفق عليه

" حضرت ابن مسعو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت۔ (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْ ا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ) 6۔ الانعام : 82)۔ نازل ہوئی تو اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بڑا بوجھ محسوس ہوا (کیونکہ انہوں نے یہ گمان کیا کہ " ظلم" سے مراد مطلق گناہ ہیں) چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم میں ایسا کون شخص ہے جس نے اپنے نفس پر ظلم نہیں کیا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔" یہ بات نہیں ہے (یعنی ظلم سے وہ مراد نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو یعنی مطلق گناہ) بلکہ " ظلم " سے " شرک" مراد ہے۔ کیا تم نے لقمان کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انہوں نے اپنے (مومن) بیٹے کو کی تھی (اور وہ یہ کہ ) اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا (یعنی ایمان باللہ اور ان تمام چیزوں میں کہ جن پر ایمان لانا واجب ہے شرک ) کی آمیزش نہ کرنا) کیونکہ شرک یقینا بہت بڑا ظلم ہے" اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) ظلم سے وہ مراد نہیں ہے جس کا تم نے گمان کیا ہے بلکہ اس سے وہ مراد ہے جو لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح :
جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ نے " ظلم" کو " گناہ" پر حمل کیا یعنی وہ سمجھے کہ اس آیت میں جن مومنین کو مامون اور ہدایت یافتہ قرار دیا گیا ہے ان سے وہی مومنین مراد ہیں جن کے اعمال، گناہ ومعصیت کی آمیزش سے بالکل پاک وصاف ہوں، چنانچہ وہ اپنے گمان کے مطابق اس آیت کریمہ کے نزول سے بہت پریشان ہوئے اور حضور سے عرض کیا کہ اس آیت کی روشنی میں تو ہم میں سے شاید ہیکوئی مومن ہدایت یافتہ اور مومن قرار پائے کیونکہ ہم میں سے ایسا کون شخص ہے جس سے کبھی معصیت و گناہ صادر نہ ہوا ہو ۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے واضح فرمایا کہ اس آیت میں " ظلم " سے مراد" گناہ" نہیں ہے جیسا کہ تم نے گمان کیا ہے بلکہ " شرک " مراد ہے۔
اگر اس موقع پر یہ اشکال واقع ہو کہ ایمان کے ساتھ شرک کا مخلوط ہونا کیوں کر ممکن ہے کیونکہ ایمان شرک کی ضد ہے، البتہ ایمان کے ساتھ گناہ کا مخلوط ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے اور اسی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذہن اس طرف گیا تھا کہ " ظلم" سے مراد گناہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ ایمان کے ساتھ شرک کا مخلوط ہونا واقع کے اعتبار سے صحیح ہے، اس کی مثال مشرکین مکہ تھے، جو اگرچہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی بت پرستی بھی کرتے۔ واضح رہے کہ " شرک" کی دو قسمیں ہیں ایک تو شرف فی الربوبیۃ یعنی عبادت وتعظیم، میں اور کو بھی اللہ قرار دینا، اس قسم کے مشرک دنیا میں کم ہیں، دوسرے شرک فی الالوہیۃ یعنی عبادت وتعظیم، اور اللہ کی صفات خاص جیسے خالقیت، رزاقیت اور حاجت براری وگیرہ میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا، اس قسم کے مشرک دنیا میں بہت سے نام کے مسلمان بھی اس شرک میں گرفتار ہیں) چنانچہ حدیث میں جس شرک کو ظلم کا محمول قرار دیا گیا ہے اس سے وہ شرک مراد ہے جس کا تعلق دوسری قسم سے ہو۔ اس بات کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے ۔ (وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ) 12۔یوسف : 106)۔ (اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں اور شرک بھی کرتے جاتے ہیں)۔
علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایمان کے ساتھ طلم یعنی شرک کو ملانے سے یہ مراد ہو کہ زبان سے تو یمان کا اقرار کیا جائے اور دل میں شرک کا اندھیرا ہو جیسے منافقین کا حال ہوتا ہے کہ وہ ظاہری ایمان کے ساتھ باطنی شرک کم مخلوط رکھتے ہیں بایں طور کہ وہ زبان سے تو ایمان کا اقرار کرتے ہیں اور ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں مگر وہ دل سے ایمان کو قبول نہیں کرتے بلکہ ان کے اندر شرک اور اسلام دشمنی کے جذبات بھرے ہوئے ہیں۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ (اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) 31۔ لقمان : 13) (کیونکہ شرک یقینا بہت بڑا ظلم ہے) استیناف تعلیل ہے، جس کی مراد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ شرک ایسا گناہ ہے جو ایمان کو سرے سے ختم کردیتا ہے، گویا ایمان اور شرک کسی بھی حال میں جمع نہیں ہوسکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ اس کے برخلاف اور تمام گناہ اس درجہ کے نہیں ہیں کہ وہ ایمان کے منافی ہوں، چنانچہ تمام اہل سنت والجماعت کا یہی مسلک ہے کہ کفر وشرک کے ولاوہ اور کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو ایمان کو سرے سے ختم کردے جب کہ معتزلہ ، خوارج اور دیگر اہل بدعت ہر گناہ کبیرہ کو ایمان کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہلے یہ ہی سمجھا تھا کہ اس آیت میں جن لوگوں کو مومن وہدایت یافتہ قرار دیا گیا ہے ان سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کو گناہ سے ملوث نہیں کیا ہے کیونکہ شرک کا ایمان کے ساتھ مخلوط ہونا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر واضح فرمایا کہ بعض صورتوں میں ایمان کے ساتھ شرک کا ملنا ممکن ہے جیسے کوئی شخص اللہ پر ایمان لائے اور اس کی عبادت میں غیر اللہ کو شریک کرے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آیت میں ایمان باللہ کا مفہوم اسی وقت پورا ہوتا ہے اس سے اس کے لغوی معنی مراد ہیں نہ کہ شرعی معنیٰ کیونکہ شرعی نقطہ نظر سے ایمان تمام صفات کمالیہ کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کرنے اور اس کی ذات کو تمام نقصان وعیوب سے پاک قرار دینے پر مشتمل ہو، ورنہ (آیت میں لفظ ایمان کو اس کے لغوی معنی پر محمول قرار دینے کی صورت میں ) یہ لازم آئے گا کہ حقیقت کے اعتبار سے تمام مشرکین وکفار ایمان رکھنے والے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ ولئن سألتہم من خلقہم لیقولن اللہ۔ لیکن ظاہر ہے کہ شریعت میں اس طرح کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اصل ایمان وہی ہے جو اللہ کی ذات کے اعتراف واقرار کے ساتھ اس کی صفات خاص اور عبادت میں کسی کو شریک قرار نہ دینے پر مشتمل ہو) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے فعل وعمل کی بھی اجازت نہیں دی ہے جس سے ظاہرا اور صورۃ ہی شرک کا ارتکاب ہوتا ہو جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ انا اغنی الشرکاء عن الشرک۔

یہ حدیث شیئر کریں