مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ توکل اور صبر کا بیان ۔ حدیث 1063

مداہنت کرنے والے کی مثال

راوی:

وعن النعمان بن بشير قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل المدهن في حدود الله والواقع فيها مثل قوم استهمواسفينة فصار بعضهم في أسفلها وصار بعضهم في أعلاها فكان الذي في أسفلها يمر بالماء على الذين في أعلاها فتأذوا به فأخذ فأسا فجعل ينقر أسفل السفينة فأتوه فقالوا مالك ؟ قال تأذيتم بي ولا بد لي من الماء . فإن أخذوا على يديه أنجوه ونجوا أنفسهم وإن تركوه أهلكوه وأهلكوا أنفسهم . رواه البخاري

" حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " اللہ کی مقرر کردہ حدود میں غفلت و سستی کرنے والے اور ان حدود میں گر پڑنے والے یعنی گناہ کا ارتکاب کرنے والے کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو قرعہ ڈال کر کشتی میں بیٹھے ہوں (جیسے کسی سواری میں ایک ساتھ سفر کرنے والوں کی عادت ہوتی ہے کہ قرعہ وغیرہ کی صورت میں ہر شخص کی جگہ متعین کر دی جاتی ہے اور جس شخص کی جو جگہ متعین ہوتی ہے وہ اسی جگہ پر بیٹھتا ہے) چنانچہ ان میں سے بعض لوگ کشتی کے نیچے کے حصے میں ہوں اور بعض لوگ اس کے اوپر کے حصے میں پھر جو لوگ کشتی کے نیچے کے حصے میں ہوں وہ جب پانی لینے کے لئے اوپر کے حصے میں آئیں تو اس حصے میں بیٹھے ہوئے لوگ اس شخص کے آنے جانے کی وجہ سے تکلیف محسوس کرنے لگیں (جو پانی لانے کے لئے اوپر جائے اور وہاں کے لوگوں کے درمیان سے گزرے) لہٰذا نیچے کے حصہ والوں میں ایک شخص (اوپر والوں کی تکلیف و ناگواری کو دیکھ کر) یہ کرے کہ کلہارا لے کر کشتی کی سطح کو توڑنا شروع کر دے، اور پھر اوپر کے لوگ اس کے پاس آئیں اور کہیں کہ یہ تمہیں کیا ہوا ہے (یعنی یہ تم کیسا بے تکا کام کر رہے ہو کہ کشتی کی سطح کو توڑ رہے ہو اور تمام کشتی والوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہو؟) اس پر وہ شخص یہ جواب دے کہ جب میں (پانی لینے کے لئے ) اوپر جاتا ہوں اور تم لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوں تو تم تکلیف و ناگواری محسوس کرتے ہو اور میں پانی حاصل کرنے پر مجبور ہوں (خواہ اس کے لئے مجھے کشتی کی سطح ہی کو کیوں نہ توڑ کر پانی کی جگہ نکالنی پڑے) ایسی حالت میں (دو ہی صورتیں سامنے ہو سکتی ہیں ) یا تو لوگ اس شخص کے ہاتھ کو روکیں (یعنی اس کو کشتی کی سطح نہ توڑنے دیں) تاکہ اس کو بھی اور خود اپنے آپ کو بھی (غرقابی اور ہلاکت سے ) بچائیں یا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں (یعنی کشتی کی سطح توڑنے سے اس کو نہ روکیں) اور پھر اس کو بھی ہلاکت میں ڈالیں اور خود بھی ہلاک ہو جائیں" ۔ (بخاری)

تشریح
حدیث میں جو لفظ ، مدہن، ذکر کیا گیا ہے اس کے معنی ہیں مداہنت کرنے والا اور مداہنت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص طاقت و قدرت رکھنے کے باوجود کسی خلاف شرع امر کو دیکھ کر اس کو مٹانے و ختم کرنے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے باز رہے اور یہ باز رہنا خواہ شرم حضوری کی وجہ سے ہو یا دینی بے حمیتی کی بنا پر اور خواہ کسی کی جانب داری اور کسی غرض و لالچ کی وجہ سے ہو یا دین کی پرواہ نہ ہونے کی وجہ سے۔ واضح رہے کہ لغت میں ، مداہنت اور مدارت کے کے ایک ہی معنی ہیں، لیکن شریعت میں مدارت کی اجازت ہے بلکہ بعض مواقع پر اس کو مستحسن قرار دیا گیا ہے جب کہ مداہنت کی صریح ممانعت ہے، چنانچہ شرع نقطہ نظر سے مدارت اور مداہنت کے درمیان فرق یہ ہے کہ مدارت کی بنیاد، دین کی حفاظت مصالح وقت کی رعایت اور ظالموں کے ظلم کو دور کرنے پر ہوتی ہے اور مداہنت کی بنیاد اپنے نفس کے تحفظ اور اس کی خواہشات کی تکمیل ، لوگوں سے منفعت و مفاد حاصل کرنے اور دین سے لاپرواہی پر ہوتی ہے۔
" اللہ کی حدود میں غفلت و سستی کرنے " کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی جو حد (سزائیں ) مقرر کی ہیں (جیسے شرابی کو کوڑے مارنے وغیرہ) ان کو طاقت و قدرت کے باوجود قائم و جاری کرنے میں لاپرواہی و غفلت کرنا۔ یا اللہ تعالیٰ نے جن گناہوں کو موجب حد قرار دیا ہے (جیسے زنا اور شراب نوشی وغیرہ) ان کے مرتکبین کو ان گناہوں سے روکنے میں غفلت کرنا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دینے سے باز رہنا ۔ پس حضور نے فرمایا کہ جس طرح کشتی میں سوار کوئی شخص کشتی کی سطح کو توڑنے لگے اور کشتی میں سوار دوسرے لوگ اس کو اس کی حرکت سے باز رکھیں تو کشتی ڈوبنے سے بچ جائے گی اور تمام مسافر محفوظ وسلامت رہیں گے اور اگر دوسرے مسافر اس شخص کو اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف وہی شخص بلکہ دوسرے تمام مسافر بھی اس شخص کی اس حرکت کی وجہ سے غرقاب و ہلاک ہو جائیں گے اسی طرح اگر لوگ کسی فاسق و بدکار کو اس کے فسق و بدکاری سے روکیں اور برائیوں کے راستہ سے باز رکھیں تو وہ اس فاسق و بدکار کی نجات و فلاح کا بھی باعث بنیں گے اور خود کو بھی عذاب الٰہی سے محفوظ رکھ پائیں گے اور اگر لوگ اس فاسق و بدکار کو اس حالت پر چھوڑ دیں کہ وہ اسی طرح فسق و بدکاری میں مبتلا رہے تو پھر نہ صرف وہ فاسق و بدکار ہی تباہ و برباد ہوگا بلکہ وہ لوگ اپنے آپ کو بھی ہلاکت و تباہی میں مبتلا کریں گے کیونکہ جب دنیا والوں کی بد اعمالیوں اور بد کاریوں کی وجہ سے اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس کی تباہ کاریوں میں کسی نہ کسی حیثیت سے سب ہی لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ آیت (واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصہ)۔ یعنی تم لوگ اپنے آپ کو اس فتنہ سے بچاؤ جو خاص طور پر ان ہی لوگوں کو مبتلا نہیں کرے گا جنہوں نے ظلم کیا ہے، بلکہ تمہاری مداہنت کی وجہ سے تمہیں بھی مبتلا کرے گا۔
" جو قرعہ ڈال کر کشتی میں بیٹھے ہوں " کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے کشتی کو درجات میں تقسیم کر لیا ہو جن میں سے ایک درجہ تو کشتی کے اوپر کے حصہ میں واقع ہو اور دوسرا درجہ کشتی کے نیچے کے حصہ میں ہو اور ان دونوں درجات میں بیٹھنے کے لئے قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کیا گیا ہو کہ جس شخص کا نام قرعہ میں جس درجہ کے لئے نکلے وہ شخص اسی درجہ میں بیٹھے گا۔ واضح رہے کہ یہ قرعہ والی بات محض ایک قید اتفاقی کے طور پر ہے ورنہ عام طور سے کشتی میں بیٹھنے کا یہ طریقہ رائج نہیں ہے بلکہ نشست اور درجات کی تقسیم کشتی کے مالک و منتظم کی صوابدید پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کرایہ و ٹکٹ کی حیثیت اور ترتیب کے مطابق جس شخص کو جہاں چاہتا ہے جگہ دیتا ہے یا جس شخص کو جہاں جگہ مل جاتی ہے، وہاں بیٹھ جاتا ہے، ہاں اگر کشتی کسی ایک شخص کی ملکیت ہونے کے بجائے مشترکہ طور پر چند اشخاص کی یکساں طور پر ملکیت ہوتی ہے اور وہ اشخاص ایک ساتھ اس کشتی میں چاہیں تو اس صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب اپنی اپنی نشست کے لئے قرعہ ڈال لیں اور جس شخص کا نام جس درجہ اور جس جگہ کے لئے نکلے وہ وہاں بیٹھ جائے۔
فکان الذی فی اسفلہا الخ میں لفظ الذی استعمال کرنا ماسبق میں ذکر کئے گئے لفظ بعض کی مناسبت سے ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اس حصے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں میں سے صرف ایک شخص بھی ایسا کرے (یعنی کشتی کی سطح کو توڑنے لگے) تو اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہوتا ہے ۔
" وہ جب پانی لینے کے لئے اوپر کے حصہ میں آئیں" میں لفظ " پانی" سے مراد شارحین کے نزدیک وہی عام پانی ہے جو پینے وغیرہ کے استعمال میں آتا ہے، اور بعض شارحین کہتے ہیں کہ یہاں " پانی " سے مراد پیشاب پاخانہ ہے جو نیچے کے حصے میں کوئی شخص کسی برتن وغیرہ میں کرے اور پھر اس کو دریا میں ڈالنے کے لئے اوپر کے حصے میں آئے اور وہاں کے لوگوں کے درمیان سے گزرے، اس صورت میں اس شخص کی وجہ سے اوپر کے حصہ والوں کا تکلیف و ناگواری کو دیکھ کر کشتی کے نیچے کی سطح توڑنے لگے تاکہ اس جگہ سے پانی حاصل کرے یا غلاظت وغیرہ پھینک دیا کرے الخ۔
ایک شارح رحمہ اللہ نے حدیث کی تشریح میں یہ بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کریم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی حدود میں غفلت و سستی کرنے والے کو اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کشتی کے اوپر کے درجہ میں ہو اور حدود میں گر پڑنے والے یعنی گناہ و معصیت میں مبتلا ہونے والے کو اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی جو کشتی کے نیچے کے درجہ میں ہو اور اس کے انہماک یعنی ان حدود (گناہوں) میں مشغول و متفرق رہنے اور ان کو ترک نہ کرنے کو کشتی کے نیچے کی سطح کو توڑنے کے عمل کے ساتھ تشبیہ دی، اور گناہوں کے مرتکب کو ان گناہوں سے روکنے کو کشتی کی سطح توڑنے والے کا ہاتھ پکڑنے اور اس کو کشتی تورنے سے منع کرنے سے تعبیر کیا، اور گناہوں سے روکنے و منع کرنے کے فائدہ کو ان سب لوگوں کی فلاح و نجات سے تعبیر کیا جو پانی لینے کے لئے اوپر آنے والوں کو منع کریں یا جو پانی کے لئے اوپر جائیں اور ان کو اوپر آنے سے روکا جائے اور گناہوں سے منع نہ کرنے والوں کو ان لوگوں سے تعبیر کیا جو کشتی توڑنے والے کو اس کے حال پر چھوڑ دیں یعنی اس کو کشتی توڑنے سے باز رکھیں اور مدافعت کرنے والوں یعنی لوگوں کو گناہوں سے نہ روکنے والوں کے گناہ اور گناہوں کا ارتکاب کرنے والے کے انجام کو اس امر سے تعبیر کیا کہ اگر کشتی کے اوپر والے کشتی کو توڑنے والے کو منع نہ کریں تو وہ اپنے آپ کو بھی اور کشتی توڑنے والے کو بھی ہلاکت و تباہی میں ڈال دیں گے ۔ نیز اسلام کو گویا کشتی سے تعبیر فرمایا جو دونوں قسم کے لوگوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔
آخر میں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ حدیث میں منع کرنے والوں کے طبقہ کو جمع کے صیغہ کے ساتھ ذکر فرمایا جس کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس شخص کی حسب قدرت پوری مدد کریں جو لوگوں کو گناہوں اور برائیوں سے باز رکھنے کا فریضہ انجام دے اور اسی طرح گناہ کرنے والے کا ذکر مفرد کے صیغہ کے ساتھ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گناہ کے مرتکب اپنی حیثیت کے اعتبار سے ناقص ہیں خواہ وہ تعداد میں کتنے ہی ہوں۔

یہ حدیث شیئر کریں