مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ توکل اور صبر کا بیان ۔ حدیث 1066

گناہ کو گناہ سمجھو

راوی:

وعن العرس بن عميرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا عملت الخطيئة في الأرض من شهدها فكرهها كان كمن غاب عنها ومن غاب عنها فرضيها كان كمن شهدها . رواه أبو داود

" حضرت عرس بن عمیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جب زمین پر گناہ کئے جائیں تو جو شخص ان گناہوں کر برا جانے وہ اس شخص کی مانند ہے جو وہاں موجود نہ ہو (اور ان گناہوں کے وقوع کو نہ جانتا ہو) اور جو شخص وہاں موجود نہ ہو لیکن وہ ان گناہوں کے وقوع کو جانتا ہو) اور وہ ان گناہوں کو برا نہ جانے تو وہ اس شخص کی مانند ہوگا جو وہاں موجود ہو (اور ان گناہوں کو برا خیال نہ کرے" ۔ ( ابوداؤد )

تشریح :
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ گناہ کو ہر حال میں گناہ سمجھو، اور اس کو برا خیال کرو۔ اگر تمہاری آنکھوں کے سامنے کسی گناہ کا ارتکاب ہو رہا ہو تو اول اس کو ہاتھ اور زبان کے ذریعہ مٹانے اور ختم کرنے کی کو شش کرو اور اگر ان دونوں میں سے کسی کی بھی طاقت وقدرت نہیں رکھتے ہو تو پھر جو آخری درجہ ہے اس کو اختیار کرو یعنی اس گناہ کو برا خیال کرو اور دل میں اس کے خلاف نفرت کا جذبہ رکھو۔ اس صورت میں تمہارا شمار گویا ان لوگوں کے زمرہ میں ہوگا جو وہاں موجود ہی نہ ہو، اور جن کی آنکھوں کے سامنے اس گناہ کا ارتکاب نہ ہو رہا ہو۔ اس سے واضح ہوا کہ حقیقی موجودگی وغیر موجودگی کا تعلق دل سے ہے نہ کہ جسم و بدن سے، چنانچہ جس شخص نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے گناہ کو برا خیال کیا اور دل میں بھی اس کے خلاف نفرت رکھی تو گویا حقیقت میں وہ اس جگہ موجود نہیں جہاں وہ گناہ کیا جارہا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر وہاں موجود ہے اور اگر کسی شخص نے گناہ کو گناہ نہیں سمجھا یعنی اس گناہ کو اور اس گناہ کے مرتکب کو دل میں برا خیال نہیں کیا تو گویا وہ حقیقت میں اس جگہ موجود ہے جہاں وہ گناہ کیا جارہا ہے اگرچہ ظاہری طور پر وہاں موجود نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں