مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ توکل اور صبر کا بیان ۔ حدیث 1069

آخر زمانہ میں دین پر عمل کرنے کی فضیلت واہمیت

راوی:

وعن أبي ثعلبة في قوله تعالى ( عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم )
. فقال أما والله لقد سألت عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال بل ائتمروا بالمعروف وتناهوا عن المنكر حتى إذا رأيت شحا مطاعا وهوى متبعا ودينا مؤثرة وإعجاب كل ذي رأي برأيه ورأيت أمرا لا بد لك منه فعليك نفسك ودع أمر العوام فإن وراءكم أيام الصبر فمن صبر فيهن قبض على الجمر للعامل فيهن أجر خمسين منهم ؟ قال أجر خمسين منكم . رواه الترمذي وابن ماجه

" حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد۔ (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ) 5۔ المائدہ : 105) ۔ کی تفسیر میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا جان لو اللہ کی قسم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا (کہ کیا میں اس آیت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے باز رہوں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (کہ ہرگز نہیں) تم اس فریضۃ کی ادائیگی سے باز نہ رہو) بلکہ نیکیوں کا حکم دیتے رہو یہاں تک کہ جب تم بخل کو دیکھو کہ لوگ اس کی اتباع کرنے لگے ہیں، جب تم خواہشات نفس کو دیکھو کہ لوگ اس کے غلام بن گئے ہیں، جب دنیا کو دیکھو کہ لوگ اس کے غلام بن گئے ہیں، جب دنیا کو دیکھو کہ لوگ اس کو آخرت پر ترجیح دینے لگے ہیں، جب تم دیکھو کہ ہر عقل مند اور کسی مسلک کا پیرو اپنی ہی عقل اور اپنے ہی مسلک کو سب سے اچھا اور پسندیدہ سمجھنے لگا ہے (کہ نہ تو وہ کتاب وسنت اور اجماع امت اور قیاس کی طرف نظر کرتا ہے اور نہ علماء اور اہل حق کی طرف رجوع کرتا ہے بلکہ محض اپنے نفس ہی کو سب سے بڑا حاکم اوعر مفتی سمجھنے لگا ہے) اور جب تم کسی ایسی چیز کو دیکھو کہ جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہ ہو تو (ان سب صورتوں میں) اپنے آپ کو لازم پکڑ لو (یعنی اپنی ذات کو گناہوں سے محفوظ رکھو) اور عوام کے معاملات سے کوئی تعلق نہ رکھو (بلکہ ان سے گوشہ نشینی اختیار کرو) کیونکہ تمہارے سامنے آخرزمانہ میں ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا ضروری ہوگا (اور ان ایام کی ابتداء خلفاء راشدین کے بعد ہی ہوگئی ہے اور تاحال ان کا سلسلہ جاری ہے) لہٰذا جس شخص نے ان دنوں میں صبر کرلیا (یعنی اس سخت زمانہ میں دین پر عمل پیرا رہنے کی کلفت ومشقت کو برداشت کرلیا) اس کی حالت یہ ہوگی کہ گویا ان سے اپنے ہاتھ میں انگارا لے لیا ہے اور ان دنوں میں جو شخص دین وشریعت کے احکام پر عمل کرے گا اس کو ان پچاس لوگوں کے عمل کے برابر ثواب ملے گا جو اس شخص جیسے عمل کریں (اور ان کا تعلق نہ ان سخت ایام سے ہو اور نہ ان کو دین پر عمل کرنے کے سلسلے میں وہ تکالیف ومصائب برداشت کرنا پڑے جو اس شخص کو برداشت کرنا پڑیں گے) ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے (یہ سن کر) عرض کیا یا رسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کیا ان پچاس لوگوں کے عمل کا اعتبار ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے پچاس آدمیوں کا اجروثواب" ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)

تشریح :
وریت امر الابدلک(اور جب تم ایسی چیز دیکھو جس کے علاوہ چارہ کار نہو) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ایسی برائی کا دور دورہ ہو کہ جس کی طرف خواہش نفس کا میلان ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان آنے اور ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے جبلت طبعی کی بناء پر بے اختیار اس برائی میں مبتلا ہوجانے کا خدشہ ہو تو اس صورت میں ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلینا لازم ہے تاکہ اس برائی کا ارتکاب نہ ہو۔ اور بعض حواشی میں یہ مطلب لکھا ہے لابدلک سے مراد اپنے عجز کے سبب نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے معذور رہنا ہے۔ یعنی اگر تم کسی ایسی برائی کو دیکھو جس سے لوگوں کو روکنے اور منع کی طاقت تم نہ رکھتے ہو اور اس وجہ سے تم نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے سکوت واعراض کرتے ہو تو اس صورت میں تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لو جو اس برائی میں مبتلا ہیں۔ یہ معنی کتاب کے ان نسخوں کی روایت کے مطابق ہیں جن میں لابدلک (جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہ ہو) کے بجائے لایدلک (بمعنی لاقدرۃ لک علیہ یعنی جس سے روکنے اور منع کرنے کی طاقت وقدرت تمہیں حاصل نہ ہو) کے الفاظ ہیں۔ یا مذکورہ جملہ کی مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اگر تمہیں کوئی ایسا امر درپیش ہو جو تمہارے لئے نہایت ضروری ہو اور سخت اہمیت کا حامل ہو اور اس کی وجہ سے تم نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دے سکتے ہو بایں طور کہ اگر تم اپنی توجہ اور اپنے وقت کو اس فریضہ کی انجام دہی میں لگاتے ہو تو تمہارے وہ ضروری امر فوت ہوجاتا، ہو تو اس صورت میں تم ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لو، جو برائیون میں مبتلا ہیں اور جن کو ان برائیوں سے روکنے سے تم معذور ہو۔
" اور عوام کے معاملات سے کوئی تعلق نہ رکھو" کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کچھ لوگوں کو دیکھو کہ وہ گناہ کرتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا ہیں مگر تم طاقت قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے ان لوگوں کو نیکی کی تلقین کرنے اور برائی سے روکنے سے سکوت واعراض کرنا ضروری سمجھتے ہو تو اس صورت میں تمہیں چاہئے کہ بس اپنی ذات کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے بجائے خود اپنے آپ کو گناہوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے اور نیک کاموں کو اختیار کرنے میں مشغول رہو، نیز لوگوں کے معاملات وحالات اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو، وہ اگر چاہے تو اپنے فضل وکرم سے خود ہی ان کو راہ راست پر لے آئے گا ورنہ ان کو سخت سزا دے گا۔ اس حکم کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو بس اسی قدر ذمہ دار قرار دیتا ہے ، جتنی ذمہ داری اٹھانے کی وہ طاقت وقدرت نہ رکھتا ہو۔
" گویا اس نے اپنے ہاتھ میں انگارہ لے لیا ہے" یہ جملہ دراصل مشقت وکلفت برداشت کرنے سے کنایہ ہے یعنی اس زمانہ میں دین پر چلنا اور دنیا سے بے رغبتی رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا بلکہ یہ کام اتنا سخت اور اس قدر مصائب اور کلفتوں سے بھرپور ہوگا کہ جیسے کوئی شخص اپنے ہاتھ پر دہکتا ہوا انگارہ رکھ لے اور پھر اس کی تکلیف واذیت کو برداشت کرلے۔
حدیث کے آخری جزء سے مذکورہ صفت (یعنی دین پر عمل پیراہونے کی کلفت ومشقت برداشت کرنے اور اس پر صابر وشاکر رہنے) میں صحابہ رضی اللہ عنہم پر آخر زمانہ کے دیندار لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جزوی فضیلت، کلی فضیلت کے منافی نہیں ہوسکتی، چنانچہ اوب عمروبن عبدالبر نے ، جو مشاہیر محدثین میں سے ہیں، اپنی کتاب استیعاب میں اس مسئلہ پر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس امت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو کسی صحابہ رضی اللہ عنہم کے مرتبہ جیسی فضیلت رکھا تو بلکہ صحابی سے زیادہ فضیلت کا حامل ہو۔ انہوں نے اپنے اس قول کی دلیل میں ان احادیث کو پیش کیا ہے جن سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے، لیکن علماء کا مختار قول اس کے خلاف ہے تاہم واضح رہے کہ یہ اختلاف اقوال بس ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی حد تک ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر ایمان لائے اور واپس اپنے وطن چلے گئے ، اس سے زیادہ صحبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو حاصل نہ رہی، ورنہ جہاں تک ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذات کا تعلق ہے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طویل صحبت ورفاقت کا شرف حاصل رہا ہے اور جو شب وروز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضررہے اور انہوں نے آثار وانوار صحبت جمع کئے ان کی ذات اس اختلاف اقوال سے ماور اء ہے کہ ان کے بارے میں کسی بھی عالم کا یہ قول نہیں ہے کہ اس امت کوئی بھی فرد ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کے رتبہ کے بقدر یا اس سے زائد فضیلت رکھ سکتا ہے، بلکہ ہم تو جمہور علماء کے قول کے مطابق بلا استثناء تما ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ شرف صحابیت کا مرتبہ ہر ایک صحابی کو حاصل ہے خواہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر ایمان لر کر اپنے وطن چلے گئے ہوں اور خواہ تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت ورفاقت میں رہے ہوں، اور یہ شرف بذات خود اس درجہ کا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی بھی فرفد اس مرتبہ میں ان کا شریک نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس امت کا کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی بلا استثناء کسی بھی صحابی رضی اللہ کے مرتبہ جیسی فضیلت نہیں رکھ سکتا ۔ قوب القلوب میں کیا خوب لکھا ہے کہ جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑنے والی ایک ہی نظر سے وہ حقائق آشکارا ہوجاتے ہیں اور وہ مقام ومقصد حاصل ہوجاتا ہے جو دوسروں کو سالہا سال کے چلوں اور قرنہا قرن کی ریاضت ومجاہدہ سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔

یہ حدیث شیئر کریں