مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ توکل اور صبر کا بیان ۔ حدیث 1070

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جامع خطبہ کا ذکر

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري قال قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا بعد العصر فلم يدع شيئا يكون إلى قيام الساعة إلا ذكره حفظه من حفظه ونسيه من نسيه وكان فيما قال إن الدنيا حلوة خضرة وإن الله مستخلفكم فيها فناظر كيف تعملون ألا فاتقوا الدنيا واتقوا النساء وذكر إن لكل غادر لواء يوم القيامة بقدر غدرته في الدنيا ولا غدر أكبر من غدر أمير العامة يغرز لواؤه عند أسته . قال ولا يمنعن أحدا منكم هيبة الناس أن يقول بحق إذا علمه وفي رواية إن رأى منكرا أن يغيره فبكى أبو سعيد وقال قد رأيناه فمنعتنا هيبة الناس أن نتكلم فيه . ثم قال ألا إن بني آدم خلقوا على طبقات شتى فمنهم من يولد مؤمنا ويحيى مؤمنا ويموت مؤمنا ومنهم من يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت كافرا ومنهم من يولد مؤمنا ويحيى مؤمنا ويموت كافرا ومنهم من يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت مؤمنا قال وذكر الغضب فمنهم من يكون سريع الغضب سريع الفيء فإحداهما بالأخرى ومنهم من يكون بطيء الغضب بطيء الفيء فإحداهما بالأخرى وخياركم من يكون بطيء الغضب سريع الفيء وشراركم من يكون سريع الغضب بطيء الفيء . قال اتقوا الغضب فإنه جمرة على قلب ابن آدم ألا ترون إلى انتفاخ أوداجه ؟ وحمرة عينيه ؟ فمن أحس بشيء من ذلك فليضطجع وليتلبد بالأرض قال وذكر الدين فقال منكم من يكون حسن القضاء وإذا كان له أفحش في الطلب فإحداهما بالأخرى ومنهم من يكون سيء القضاء وإن كان له أجمل في الطلب فإحداهما بالأخرى وخياركم من إذا كان عليه الدين أحسن القضاء وإن كان له أجمل في الطلب وشراركم من إذا كان عليه الدين أساء القضاء وإن كان له أفحش في الطلب . حتى إذا كانت الشمس على رؤوس النخل وأطراف الحيطان فقال أما إنه لم يبق من الدنيا فيما مضى منها إلا كما بقي من يومكم هذا فيما مضى منه . رواه الترمذي

" حضور ابوسعید خدر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) عصر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا: اس خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (متعلقات دین میں سے) ایسی کوئی ضروری بات نہیں چھوڑی جو قیامت تک پیش آسکتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان باتوں کو ذکر فرمایا: اور یاد رکھنے والے نے ان کو یاد رکھا اور بھولنے والا اس کو بھول گیا، (یعنی وہ باتیں اتنی تفصیل اور ہمہ گیری کے ساتھ بیان ہوئی کہ بعض لوگوں کو تو یاد رہیں اور بعض لوگوں کے حافظہ نے ان کو فراموش کردیا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت جو کچھ فرمایا اس میں یہ بھی تھا کہ " دنیا بڑی شیریں اور ہری بھری ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا وہ دیکھتا ہے کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو۔ پس خبردار! تم دنیا سے بچنا اور عورتوں سے دور رہنا " ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ " قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک نشان (علامتی جھنڈا) کھڑا کیا جائے گا جو دنیا میں اس کی عہد شکنی کے بقدر ہوگا (یعنی جس شخص نے دنیا میں) جتنی زیادہ عہد شکنی کی ہوگی اس کا وہ نشان اسی قدر بلند ونمایاں ہوگا تاکہ میدان حشر میں اس کو عام طور پر پہچان لیا جائے کہ یہ عہد شکنی کا مرتکب ہے اور اس نے کتنی زیادہ عہد شکنی کی ہے اور اس طرح کا علامتی نشان ہر باعث حق و باطل کے لئے ہوگا تاکہ ایک دوسرے سے امتیاز کر کے پہچانا جاسکے جیسے اس دنیا میں امراء اور مقتدرین اپنے ساتھ کوئی علامتی نشان رکھتے ہیں اور ان کی عہد شکنی امیر عامہ کی عہد شکنی سے زیادہ بڑی نہیں چنانچہ اس کا نشان اس کی مقعد کے قریب کھڑا کیا جائے گا (تاکہ اس کی زیادہ فضیحت ورسوائی ہو" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ " تم میں سے کسی کو بھی کوئی خوف وہیبت حق بات کہنے سے باز نہ رکھے، جب کہ وہ حق بات سے واقف ہو (یعنی کوئی شخص کلمہ حق کہنے میں کسی کا کوئی خوف ولحاظ نہ کرے بلکہ اس کو برملا کہے) ہاں اس کی وجہ سے جان جانے کا خوف ہو تو معذوری ہے اگرچہ اس صورت میں بھی اس سے باز رہنا اولی ہوگا ) ایک اور روایت میں اس جگہ ولا یمنعن احدا منکم ہیبۃ الناس ان یقول بحق کے بجائے) یہ ہے کہ " جب تم میں سے کوئی شخص کسی خلاف شرع امر کو دیکھے تو لوگوں کا کوئی خوف وہیبت اس کو خلاف شرع امر کی اصلاح وسرکوبی سے باز نہ رکھے" ۔ (یہ بیان کرکے) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روپڑے اور کہنے لگے کہ ہم نے خلاف شرع امر کو (اپنی آنکھ سے ) دیکھا اور لوگوں کے خوف سے ہم اس کے بارے میں کچھ نہ کہہ سکے۔ (اس کے بعد حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا " جان لو کہ آدم علیہ السلام کی اولاد کو مختلف جماعتوں اور متضاد اقسام ومراتب کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے چنانچہ ان میں سے بعض وہ ہیں جن کو مومن پیدا کیا جاتا ہے ، جو (سن تمیز سے لے کر آخر عمر تک گویا ساری عمر) ایمان کی حالت میں زندہ رہتے ہیں اور ایمان ہی پر ان کا خاتمہ ہوتا ہے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن کو کافر پیدا کیا جاتا ہے ، جو کفر ہی کی حالت میں (ساری عمر) زندہ رہتے ہیں اور کفر ہی پر ان کا خاتمہ ہوتا ہے اور ان میں سے بعض وہی ہیں جن کو مومن پیدا کیا جاتا ہے وہ ایمان ہی کی حالت میں (ساری عمر ) رہتے ہیں لیکن ان کا خاتمہ کفر پر ہوتا ہے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن کو کافر پیدا کیا جاتا ہے وہ کفر ہی کی حالت میں (ساری عمر) گزارتے ہیں لیکن ان کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے۔" حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (اس موقع پر) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غضب وغصہ کی قسموں کو بھی ذکر کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " بعض آدمی بہت جلد غضب ناک ہوجاتے ہیں لیکن ان کا غضب وغصہ جلد ہی ختم بھی ہوجاتا ہے (یعنی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں ذرا سی بات پر جلد ہی غصہ آجاتا ہے لیکن ان کا غصہ جتنی تیزی کے ساتھ ہے اسی تیزی کے ساتھ فرو بھی ہوجاتا ہے) چنانچہ ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا بدل بن جاتا ہے (یعنی جلد غصہ آنا بری خصلت ہے اور غصہ کا جلد جاتے رہنا اچھی خصلت ہے، لہٰذا جس شخص میں یہ دونوں خصلتیں ہوں تو ان میں سے جو خصلت اچھی ہے وہ بری خصلت کی مکافات کردیتی ہے، اس طرح اس بارے میں وہ شخص نہ تو مدح وتحسین کا مستحق ہوتا ہے اور نہ برائی کا مستوجب، بلکہ دونوں خصلتوں کا حامل ہونے کی وجہ سے بین بین رہتا ہے ، بایں اعتبار اس کے متعلق نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لوگوں میں بہتر شخص ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لوگوں میں بد تر شخص ہے) اور بعض آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کو غصہ دیر میں آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے (ایسا شخص بھی ایک اچھی خصلت رکھتا ہے اور ایک بری خصلت کہ اگرچہ غصہ کا دیر میں آنا اچھا ہے لیکن اس کا دیر سے جانا برا ہے ۔چنانچہ ایسا شخص بھی بین بین ہوتا ہے کہ اس کو ایک بہترین شخص کہا جاتا سکتا ہے اور نہ بدترین شخص، لہٰذا تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جن کو غصہ دیر سے آتا ہے اور جلد فرو ہوجاتا ہے جب کہ تم میں بد ترین شخص وہ ہے جس کو جلد غصہ آئے اور دیر میں غصہ جائے" ۔ (اس کے بعد ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " تم غصہ سے بچو (یعنی ایسا کام نہ کرو جس سے غصہ آئے یا یہ مطلب ہے کہ غصہ سے اللہ کی پناہ مانگو اور اس کے درجہ اس خصلت سے بچو (کیونکہ وہ غصہ ابن آدم کے قلب پر ایک دہلکتا ہوا انگارہ ہے (یعنی غصہ آگ کے انگاہ کی طرح حرارت غریزیہ اور حدت جبلیہ رکھتا ہے جو نفس کی انگیٹھی میں دبا ہوا ہے ، اور جب خواہش نفس اس کو بھڑکاتی ہے تو اس کی حرارت اور تیزی قلب پر غالب آجاتی ہے اور عقل اپنا تصرف کرنے سے عاجز رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص اپنے غصہ کی آگ میں دوسروں کو تو جلاتا ہے لیکن خود کو بھی جلا ڈالتا ہے) کیا تم نہیں دیکھتے کہ (جب کوئی شخص غضب ناک ہوتا ہے تو) اس کی گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں اور آنکھوں سرخ ہوجاتی ہیں (یعنی یہ چیزیں دراصل اسی غصہ کی حرارت غریزیہ اور انجارات غلیظہ کے اٹھنے کا اثر ہوتی ہیں، اس طرح غضب ناک شخص کا ظاہر گویا اس کے باطن کا غماز ہوتا ہے) لہٰذا جب کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اب غصہ آیا ہی چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ فوراً پہلو پر لیٹ جائے اور زمین سے چمٹ جائے" ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرض کا بھی ذکر کیا (یعنی قرض قرضدار اور قرض خواہ کے احوال واقسام کو بھی بیان کیا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ " تم میں سے بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ (قرض کی) ادائیگی میں تو اچھا رہتا ہے لیکن اپنا قرض وصول کرنے میں سختی کرتا ہے (یعنی اگر اس پر کسی کا قرض ہوتا ہے تو اس کو ادا کرنے میں صفائی معاملہ اور خوبی کا ثبوت دیتا ہے ، لیکن جب اس کا قرض کسی پر ہوتا ہے تو اس کو قرض دار سے وصول کرنے میں سختی کرتا ہے بایں طور کہ مطالبہ وتقاضا کے وقت اس قرض دار کا کوئی ادب ولحاظ نہیں کرتا اور سختی وبدکلامی کے ذریعہ اس کو ایذاء پہنچاتا ہے اس طرح اس میں قرض کو خوبی کے ساتھ ادا کرنے کی بھی خصلت ہوتی ہے اور اصولی قرض میں برائی اختیار کرنے کی بھی خصلت چنانچہ اس کی دونوں خصلتوں میں سے ہر ایک دوسری کا بدل ہوجاتی ہے ، لہٰذا تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو کسی کا قرض ادا کرنے میں بھی اچھے ہوں اور کسی سے اپنا قرض وصول کرنے میں بھی اچھے ہوں اور تم میں بدترین لوگ وہ ہیں جو کسی کا قرض ادا کرنے میں بھی برے ہوں اور کسی سے اپنا قرض وصول کرنے میں بھی برے ہوں" ۔
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں یہ نصیحتیں فرمائیں ) یہاں تک کہ جب سورج کا اثر صرف کھجوروں کی چوٹیوں اور دیواروں کے کناروں پر رہ گیا (یعنی جب دن آخر ہوگیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا۔ " یاد رکھو! اس دنیا کا جو زمانہ گزر چکا ہے اس کی بہ نسبت اب صرف اتنا زمانہ باقی رہ گیا ہے جتنا کہ آج کے دن کے گزرے ہوئے حصہ کی بہ نسبت یہ آخری وقت۔ (یعنی جس طرح آج کے دن کا قریب قریب پورا حصہ گزر چکا ہے اب بہت قلیل عرصہ باقی رہ گیا ہے" ۔ (ترمذی)

تشریح :
" یہ دنیا بڑی شیریں اور ہری بھری ہے" کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا اپنے متعلقات کے ساتھ بظاہر اس قدر لذت آمیز اور خوش نما ہے کہ محض ظاہر حالت پر ریجھنے والے لوگوں کو طبعی طور پر اس سے بہت مناسبت اور اس کی طرف میلان ہوتا ہے اور ان کی آنکھوں میں اس کی حقیقت نہایت دلکش اور سرسبز وشاداب معلوم ہوتی ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں اہل عرب کے نزدیک جو چیز نرم ونازک ہوتی ہے اور اپنی ناپائیداری کی وجہ سے زیادہ مدت نہیں ٹھہرتی بلکہ جلد جاتی رہتی ہے اس کو وہ لوگ خضراوات یعنی سبزیوں اور ترکاریوں سے مشابہت دیتے ہوئے " خضراء " کہتے ہیں ۔ بہرحال حدیث کے اس جملہ میں دراصل اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ دنیا مکروتصنع اور ظاہر حسن ولذات سے بھری ہوئی ہے کہ لوگوں کو اپنے ظاہری ٹیپ ٹاپ رکھنے والے حسن وجمال پر فریفتہ کرتی ہے اور اپنی جھوٹی لذات وخواہشات کی طرف مائل کرتی ہے حالانکہ اس کی تمام تر دلکشی اور رنگینی اور خواہشات ولذات بہت جلد فناء کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔
" اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا میں خلیفہ بنایا ہے" کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں تمہیں جو مال ودولت حاصل ہے اس کے بارے میں تم اس حقیقت کو جان لو کہ اس مال ودولت کے تم حقیقی مالک نہیں ہو بلکہ حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور تم صرف اس کے خرچ وتصرف میں خلیفہ اور وکیل کی حیثیت رکھتے ہو۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان لوگوں کا خلیفہ قرار دیا ہے جو تم سے پہلے اس دنیا میں تھے اور ان کے اموال وجائیداد کو تمہاری سپردگی میں دے دیا ہے، لہٰذا وہ یہ دیکھتا ہے کہ تم اپنے اموال واملاک کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کرتے ہو اور اس میں کس طرح تصرف کرتے ہو یا کہ تم گزرے ہوئے لوگوں کے احوال وانجام سے کس طرح عبرت پکڑتے ہو اور ان کے چھوڑے ہوئے اموال وجائیداد میں کس طرح تصرف کرتے ہو۔
" " تم دنیا سے بچو" کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نے دنیا کی حقیقت جان لی کہ وہ فناء ہوجانے والی چیز ہے اور اس کی کسی بھی چیز کو کوئی استحکام ودوام نہیں ہے تو پھر اس کے پیچھے پڑنا نہایت نازیبا اور غیر دانش مندی کی بات ہے، لہٰذ اتم دنیا کو اس قدر حاصل کرنے کی خواہش و کوشش نہ کرو جو ضرورت وحاجت سے زیادہ ہو اور ضرورت وحاجت بھی وہ کہ جس سے آبرومندانہ زندگی کی بقاء دین کی مدد اور آخرت میں نفع حاصل ہو۔ اسی طرح " عورتوں سے بچو" کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کے حسن وجمال اور ناز وادا کے مکروفریب اور ان کی ناروامحبت وشیفتگی کے جال سے اپنے آپ کو بچاؤ کہ مبادا یہ چیز مال ودولت جمع کرنے کی حرص اور دنیا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے استغراق میں مبتلا کردے جس کی وجہ سے تم علم وعمل کی راہ سے دور ہوجاؤ۔
" امیر عامہ" سے مراد متغلبی ہے یعنی وہ شخص جو مسلمانوں کے معاملات اور ان کے ملک وشہر پر غالب وحکمران ہوگیا ہو اور عام لوگوں نے ارباب حل وعقد یعنی علماء اور دانشوران زمانہ کی رائے ومشورہ کے بغیر اس شخص کو امیر وحاکم تسلیم کرلیا ہو اور اس کے حامی ومدد گار ہوں۔
اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رونا اس احساس کی بنا پر تھا کہ ہم نے کلمہ حق کہنے کے سلسلہ میں اس مرتبہ کو ترک کردیا جو اولی ہے ، اور وہ یہ کہ ہر حال میں حق بات کہی جائے خواہ اس کی پاداش میں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ احساس محض ان کے کمال ایمان اور دین کے تئیں شدت احتیاط پر مبنی تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس مرتبہ کو ترک کرنا اسلامی تعلیمات کے قطعا خلاف نہیں تھا بلکہ ان احادیث پر عمل کرنے کی بناء پر تھا جن سے واضح ہوتا ہے کہ اہل ایمان کے ضعف واضمحلال کے زمانہ میں اور عجز وبے بسی کی صورت میں کلمہ حق کہنے سے سکوت اختیار کرنا جائز ہے ، بشرطیکہ اس کی وجہ سے جان ومال اور آبرو کی ہلاکت ونقصان کا خوف ہو۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ جب اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے عظیم انسان کو جو دین کے بارے میں انتہائی سخت ومضبوط تھے اور جو یقین ومعرفت کی دولت سے پوری طرح مالا مال تھے اگر وہ اس وصف ومرتبہ کے باوجود، اہل باطل جیسے یزید وحجاج سفاک وغیرہ کے خوف سے اظہار حق کی قدرت نہیں رکھتے تھے تو ہم جیسے مسلمانوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے جو اہل ایمان کے انتہائی ضعف واضمحلال کا زمانہ پائے ہوئے ہیں جن میں با عمل علماء اور ایمانی جرات وایثار رکھنے والے راہبر کم ہیں جو ریا کار مشائخ وصوفیاء کی کثرت رکھتے ہیں اور جن پر اکثر ظالم امراء وحکماء مسلط ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ زمانہ صبروتحمل ، رضا بقضاء اور سکوت ویکسوئی اختیار کرنے اور بقدر بقاء زندگی معاشی ضروریات کے حصول پر قناعت کرنے کا ہے۔
" بعض وہ ہیں جن کو مومن پیدا کیا جاتا ہے" یعنی ان کی پیدائش مومن ماں باپ کے یہاں یا مسلم آبادی یا شہر میں ہوتی ہے اور اس اعتبار سے ان کو مومن کہا جاتا ہے، یہ وضاحت اس لئے کی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص پیدا ہوتا ہے تو سن تمیز کو پہنچنے سے قبل اس کی طرف ایمان کی نسبت نہیں کی جاتی، یہ اور بات ہے کہ علم الٰہی کے اعتبار سے یا اس سے آئندہ زمانہ کی حالت کے اعتبار سے اس کی طرف ایمان کی نسبت کردی جائے۔ اسی طرح " بعض وہ ہیں جن کو کافر پیدا کیا جاتا ہے" سے مراد وہ لوگ ہیں جو کافر ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں یا جن کی پیدائش کافروں کی آبادی اور ان کے شہر میں ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے حدیث کا یہ جملہ اس حدیث کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ کل مولود یولد علی الفطرۃ کیونکہ اس ارشاد گرامی (کل مولود الخ) کی مراد یہ بتانا ہے کہ کہ جو بھی شخص اس دنیا میں آتا ہے وہ فطری طور پر ہدایت وراستی قبول کرنے کی استعداد وصلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ کوئی ایسا مانع پیش نہ آئے جو اس کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دے جیسا کہ خود اسی حدیث کے بعد کے الفاظ فابواہ یہودانہ الخ اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں لوگوں کی جو قسمیں بیان کی گئی ہیں وہ غالب واکثریت کے اعتبار سے ہیں، ورنہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مومن پیدا ہوتے ہیں، کفر کی حالت پر زندگی گزارتے ہیں، لیکن ان کا خاتمہ ایمان ہی کی حالت پر ہوتا ہے، اسی طرح بعض وہ ہیں جو کافر پیدا ہوتے ہیں، ایمان کی حالت پر زندگی گزارتے ہیں، لیکن ان کا خاتمہ کفر کی حالت پر ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں قسمیں اس لئے ذکر نہ فرمائی گئی ہوں کہ یہاں حقیقی مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ ہدایت وگمراہی میں اصل اعتبار خاتمہ کی حالت کا ہے، اور یہ بات مذکورہ قسمیں بیان کرنے سے بھی اجمالی طور پر سمجھ میں آجاتی ہے۔
" پہلو پر لیٹ جائے اور زمین سے چمٹ جائے" غصہ آنے کے وقت اس حالت کو اختیار کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ حالت نفسیاتی طور پر غصہ کو فرو کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، کیونکہ غصہ کے وقت زمین سے لگ کر پہلو پر لیٹ جانا فوری طور پر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ جب میری حقیقت بس اتنی ہے کہ میں مٹی سے پیدا ہوا اور آخرکار مٹی ہی میں مل جاؤں گا تو مجھ کو تکبر نہ کرنا چاہئے بلکہ تحمل اور انکساری کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔

یہ حدیث شیئر کریں