مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1158

غریب ونادار مسلمانوں کو جنت کی بشارت

راوی:

وعن أسامة بن زيد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قمت على باب الجنة فكان عامة من دخلها المساكين وأصحاب الجد محبوسون غير أن أصحاب النار قد أمر بهم إلى النار وقمت على باب النار فإذا عامة من دخلها النساء . متفق عليه

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے کہ میں (معراج کی رات، یا خواب میں، یا حالت کشف میں) جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تھا (میں نے دیکھا کہ جو لوگ جنت میں داخل ہوئے ہیں ان میں زیادہ تعداد غریبوں کی ہے، اور مالداروں کو قیامت کے میدان میں روک رکھا گیا ہے۔ البتہ اصحاب نار یعنی کافروں کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا ہے اور جب میں دوزخ کے دروزاے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ جو لوگ دوزخ میں ڈالے گئے ہیں ان میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے" ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" محبوسون" کے معنی ہیں وہ لوگ جن کو جنت میں جانے سے روک دیا گیا ہے حاصل یہ کہ مومنین میں سے جو لوگ اس فانی دنیا میں مالداری و تمول، اور جاہ و منصب کی وجہ سے عیش و عشرت کی زندگی اختیار کئے ہوئے ہیں ان کو جنت میں جانے سے اس وقت تک کے لئے روکا رکھا جائے گا، جب تک ان سے اچھی طرح حساب نہیں لیا جائے گا، چنانچہ اس وقت وہ لوگ اس بات سے سخت رنج و غم محسوس کریں گے کہ انہیں دنیا میں مال و زر کی کثرت اور جاہ و منصب کی وسعت کیوں حاصل ہوئی ، اور وہ اپنی خواہشات نفس کے مطابق دنیاوی لذات و عشرت سے کیوں بہرہ مند ہوئے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر ان سے ان دنیاوی امور کا ارتکاب ہوا ہوگا جن کو حرام قرار دیا گیا ہے تو وہ عذاب کے مستوجب ہوں گے اور اگر انہوں نے محض ان چیزوں کو اختیار کیا ہوگا جن کو حلال قرار دیا گیا ہے تب بھی انہیں حساب و کتاب کے مرحلہ سے بہرحال گزرنا پڑے گا، جب کہ فقراء و مفلس لوگ اس سے بری ہوں گے کہ نہ تو ان سے حساب لیا جائے گا اور نہ انہیں جنت میں جانے سے روکا جائے گا بلکہ وہ مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں چلے جائیں گے اور ان کا مالداروں سے پہلے جنت میں جانا گویا ان نعمتوں کے عوض میں ہوگا جن سے وہ دنیا سے محروم رہے ہوں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں