مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1164

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاشی زندگی پر قرض کا سایہ

راوی:

وعن أنس أنه مشى إلى النبي صلى الله عليه وسلم بخبز شعير وإهالة سنخة ولقد رهن النبي صلى الله عليه وسلم درعا له بالمدينة عند يهودي وأخذ منه شعيرا لأهله ولقد سمعته يقول ما أمسى عند آل محمد صاع بر ولا صاع حب وإن عنده لتسع نسوة . رواه البخاري

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جو کی روٹی اور ایسی چربی لے کر آئے جو زیادہ دن رکھی رہنے کی وجہ سے بدبو دار ہو گئی تھی۔ نیز حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک مرتبہ) اپنی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھ کر اس سے اپنے اہل بیت کے لئے کچھ جو لئے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے نے یہ بھی بیان کیا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کی ایسی کوئی شام نہیں ہوتی تھی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا کوئی اور غلہ رہتا ہو جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نو بیویاں تھیں۔ (بخاری)

تشریح
روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت کے لئے کسی رات میں آنے والے دن کے لئے کسی طرح کا غلہ رکھ چھوڑا ہو باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نو بیویاں تھیں اور ان کی غذائی ضروریات کے لئے تھوڑا بہت غلہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں رہنا چاہئے تھا۔
جہاں تک ایک یہودی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرض لینے کی بات ہے تو اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مسلمان سے قرض لیتے تو مسلمان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حال ظاہر ہوتا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کو ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضروریات زندگی کا بار مسلمانوں کے کاندھوں پر پڑے اور وہ خواہ خوشی یا کسی گرانی کے ساتھ اور شرم حضوری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ دیں۔ لیکن یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کسی مسلمان کی بجائے ایک یہودی سے قرض لینا دراصل اس بات سے انتہائی تنزہ اور کامل احتیاط کے پیش نظر تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے لوگوں سے کسی " اجر و معاوضہ" کے طلب گار ہوں خواہ وہ اجر و معاوضہ کے اعتبار سے نہ ہو بلکہ محض صورۃً ہو جیسا کہ مثلاً قرض کی صورت، کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مسلمان سے قرض لیتے تو اس پر اجر و معاوضہ کا اطلاق نہ ہوتا، مگر ممکن تھا کہ کسی نہ کسی درجہ میں نفع اٹھانے کی وجہ سے اس پر بھی صورتاً اجر و معاوضہ کا اطلاق ہو جاتا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احتیاطا اس کو بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی مسلمان سے قرض ہی کی صورت میں کوئی مالی فائدہ حاصل کریں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (قل لا اسألکم علیہ من اجر ان اجری الا علی اللہ )
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس کامل احتیاط کی ایک نظیر ہمارے امام، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی زندگی میں بھی ملتی ہے، چنانچہ ان کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کی دیوار کے سایہ سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے تھے جس پر ان کا کوئی قرض ہوتا تھا اور ان کی یہ احتیاط اس حدیث کے پیش نظر ہوتی تھی کل قرض جر منفعۃ فھو ربوا (یعنی جو بھی قرض کوئی منفعت کھینچ کر لائے وہ سود ہے)۔
مذکورہ بالا حدیث کے ضمن میں ایک اشکال واضح ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بعض صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کے بقدر کفایت لازمی ضروریات کی بعض چیزیں ایک سال کے لئے اکٹھا بھروا کر رکھ دی تھیں، جب کہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے اس سے اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے؟ اس کا جواب علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ شروع میں بہت کافی عرصہ تک، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاشی زندگی پر فقر کا زیادہ غلبہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس معمول پر قائم تھے کہ کبھی کسی چیز کا ایک دن کے لئے بھی ذخیرہ نہیں کیا، جس دن جو کچھ میسر ہو گیا وہ اس دن کی غذائی ضروریات میں کام آ گیا، اگلے دن کے لئے قناعت و توکل کے علاوہ کچھ پاس نہیں رہا، ہاں بعد میں جب معاشی حالت کچھ بہتر ہوئی اور آمدنی میں کچھ وسعت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرت کے لئے ایک سال کی غذائی ضروریات کے بقدر غلہ کہ جو حد کفایت سے متجاوز نہیں تھا، اکٹھا بھروا دیا تھا ۔ بعض حضرات نے ان دونوں طرح روایتوں میں اس طور پر مطابقت پیدا کی ہے کہ اٰل محمد میں لفظ آل زیادہ ہے جیسا کہ اہل عرب کے اسلوب کلام میں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ (آل فلاں ) بول کر اس کے لفظی معنی ((فلاں کے اہل بیت)) کے بجائے صرف اس فلاں کی ذات کو مراد لیتے ہیں مثلاً اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ آل زید (یعنی زید کے گھر والوں ) کے پاس چند روپے بھی نہیں ہیں تو اس جملہ سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ خاص طور پر زید کے پاس چند روپے بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ بات بعید از حقیقت نہیں ہو سکتی کہ کبھی بھی دو روز مسلسل جو کی روٹی سے پیٹ نہ بھرنے یا اگلے دن کے لئے غلہ وغیرہ جمع نہ رکھنے کی بات خاص طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک سے تعلق رکھتی ہو یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل دو دن تک پیٹ بھر کر نہ کھایا ہو یا خاص اپنی ذات کے واسطے آنے والے ایک آدھ دن کے لئے رکھ چھوڑا ہو، ہاں اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کبھار ایسا کیا ہو کہ اپنی ازواج مطہرات کے لئے کچھ دنوں یا ایک آدھ سال کی غذائی ضروریات کے بقدر غلہ وغیرہ بھروا کر رکھ دیا ہو تو یہ اس بات کے منافی نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں