مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خدا کی اطاعت و عبادت کے لئے مال اور عمر سے محبت رکھنے کا بیان ۔ حدیث 1198

انسان کی حرص وطمع کی درازی کا ذکر

راوی:

وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لو كان لابن آدم واديان من مال لابتغى ثالثا ولا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب ويتوب الله على من تاب . متفق عليه .

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اگر (بالفرض والتقدیر) آدمی کے پاس مال ودولت سے بھرے ہوئے دو جنگل ہوں تب بھی وہ تیسرے جنگل کی تلاش میں رہے گا (یعنی اس کی حرص وطمع کی درازی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی حد پر پہنچ کر اس کو سیری حاصل نہیں ہوتی اور آدمی کے پیٹ کو مٹی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی (یعنی جب تک وہ قبر میں جا کر نہیں لیٹ جاتا اس وقت تک اس کی حرص وطمع کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بات اکثر لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے ورنہ ایسے بندگان اللہ بھی ہیں جن میں حرص وطمع ہونے کا تو کیا سوال اپنی ضرورت کے بقدر مال واسباب کی بھی انہیں پروا نہیں ہوتی۔ اور اللہ تعالیٰ بری حرص سے جس بندہ کی توبہ چاہتا ہے قبول کر لیتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کو قبول کرنا چونکہ پروردگار کی شان رحمت ہے اور ان گناہوں کا تعلق خواہ ظاہری بد عملیوں سے یا باطنی برائیوں سے ، اس لئے بری حرص میں مبتلا ہونے والا شخص اگر اخلاص و پختگی کے ساتھ اس برائی سے اپنے نفس کو باز رکھنے کا عہد کر لیتا ہے اور اپنے پروردگار سے توبہ واستغفار کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے، یا یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو اس برائی سے پاک کرنا چاہتا ہے اس پر اپنی رحمت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے بایں طور کہ اس کو اس بری خصلت کے ازالہ کی توفیق اور نفس کو پاکیزہ ومہذب بنانے کی باطنی طاقت عطا فرماتا ہے۔
اس حدیث میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ انسان کی جبلت میں بخل کا مادہ رکھا گیا ہے اور یہ بخل ہی ہے جو حرص و امل اور طمع و لالچ کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ انفاق و ایثار کے ذریعہ بخل کی سرکوبی کرتا رہے تاکہ حرص کو راہ پانے کا موقع نہ ملے۔

یہ حدیث شیئر کریں