مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دکھلاوے اور ریاکاری کا بیان ۔ حدیث 1217

مال ودولت مومن کی ڈھال ہے

راوی:

وعن سفيان الثوري قال كان المال فيما مضى يكره فأما اليوم فهو ترس المؤمن وقال لولا هذه الدنانير لتمندل بنا هؤلاء الملوك وقال من كان في يده من هذه شيء فليصلحه فإنه زمان إن احتاج كان أول من يبذل دينه وقال الحلال لايحتمل السرف . رواه في شرح السنة

حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں مال کو برا سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں میں زہد وقناعت بہت زیادہ تھی، علاوہ ازیں اس وقت کے بادشاہوں اور حاکموں کی طرف سے اپنی رعایا کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کا خاص انتظام ہوتا تھا اور لوگ بلا کسی سعی وکوشش کے اور بغیر کسی الجھن وپریشانی کے گھر بیٹھے قوت لایموت حاصل کر لیتے تھے، نیز اس سلسلے میں ان بادشاہوں اور حاکموں کے کسی تعامل و رویہ سے اپنے تئیں کوئی ذلت وخواری بھی محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے روپیہ پیسہ کمانے اور مال و دولت حاصل کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا، لیکن جہاں تک اس زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال ودولت مسلمانوں کی ڈھال ہے (کیونکہ آج کل کے لوگوں میں زہد وقناعت کے جذبات مضمحل ہو گئے ہیں اور ضروریات زندگی کی احتیاج کا بہت زیادہ غلبہ ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں اب سلاطین وامراء اور حکومتوں کی طرف سے لوگوں کی کفالت کا کوئی نظم بھی باقی نہیں رہا ہے نتیجہ کے طور پر اگر کوئی شخص کسب ومحنت کر کے مال حاصل نہ کرے تو اس کو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے ان لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے جو مالی واخلاقی ومدد اعانت سے زیادہ ذلیل وخوار کرتے ہیں پس اس صورت میں حلال مال مومن کے لئے بہت بڑی ڈھال ہے جس کے ذریعہ وہ نہ صرف حرام و مشتبہ معاملات میں پڑنے سے بچتا ہے بلکہ دنیا دار امراء اور ظالموں کی مصاحبت وحاشیہ نشینی کی ذلت وخواری سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ حضرت سفیان نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ہم لوگوں کے پاس یہ درہم ودینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ آج کل کے سلاطین وامراء ہمیں ذلیل و پامال کر ڈالتے، نیز انہوں نے فرمایا ۔ کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کی اصلاح کرے یعنی اس تھوڑے سے مال کو یوں ہی ضائع نہ ہونے دے بلکہ تدبیر و ہنرمندی کے ساتھ اس کو کسی تجارت وغیرہ میں لگا کر بڑھانے کی سعی کرے یا یہ کہ اس کو بہت کفایت وقناعت کے ساتھ خرچ کرے تاکہ جلدی ختم نہ ہو جائے کیونکہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج ومفلس ہوتا تو دنیا حاصل کرنے کی خاطر اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلے شخص وہی ہوگا۔ حضرت سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ حلال مال، اسراف کا روادار نہیں ہوتا۔ (شرح السنہ)

تشریح
حضرت سفیان رحمہ اللہ کے آخری قول کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص محنت ومشقت برداشت کر کے اور جائز وسائل وذرائع سے جو کچھ کماتا ہے وہ بڑا پاکیزہ مال ہوتا ہے، لہٰذا اس کو چاہئے کہ وہ اپنے اس حلال وپاکیزہ مال کو فضول خرچیوں میں ضائع نہ کرے بلکہ کفایت شعاری اور احتیاط کے ساتھ خرچ کرے، اور تھوڑا بہت پس انداز کرنے کی کوشش بھی کرے اور اس کی حفاظت کرے تاکہ وہ کسی فوری ضرورت کے وقت کسی کا محتاج نہ رہے اور قلبی اطمینان واستغناء کی وجہ سے اپنے دین کی سلامتی حاصل رہے۔ یا اس قول کے یہ معنی ہیں کہ محنت ومشقت اور جائز وسائل و ذرائع سے کمایا ہوا مال اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ اس کو فضول خرچیوں میں ضائع کیا جا سکے ۔ بلکہ وہ بہت تھوڑا اور مختصر ہوتا ہے کہ جائز ضروریات زندگی کو بھی مشکل ہی سے پورا کر پاتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں