مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دکھلاوے اور ریاکاری کا بیان ۔ حدیث 1218

ساٹھ سال کی عمر، بڑی عمر ہے

راوی:

وعن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ينادي مناد يوم القيامة أين أبناء الستين ؟ وهو العمر الذي قال الله تعالى أولم نعمركم ما يتذكر فيه من تذكر وجاءكم النذير رواه البيهقي في شعب الإيمان

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اعلان کرنے والا (فرشتہ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان کرے گا کہ ساٹھ سال کی عمر والے لوگ کہاں (یعنی دنیا میں جن لوگوں نے ساٹھ سال کی عمر پائی، وہ اپنی عمر کا حساب دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور یہ عمر، وہ عمر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔ کیا ہم نے تم کو ایسی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرے حالانکہ تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

تشریح
" ڈرانے والا' سے مراد یا تو اللہ تعالیٰ کے احکام وہدایات یعنی قرآن مجید اور اس کے رسول ہیں ، یا پھر اس سے مراد بڑھاپا اور موت ہیں، حاصل یہ کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اتنی طویل عمر عطا کی ہو اور آخرت کی طرف متوجہ ہونے کے اتنے زیادہ مواقع نصیب کئے ہوں وہ شخص اگر عقل ودانش سے کام لے کر اپنی آخرت کی بھلائی وکامیابی کے لئے کچھ نہ کر سکے اور عمر کا اتنا طویل عرصہ یوں ہی گنوا کر اس دنیا سے چلا جائے تو اس سے زیادہ احمق ونادان اور اس سے زیادہ بد نصیب اور کون ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو قیامت کے دن سخت جواب دہی کا سامناکرنا پڑے گا اور وہاں کوئی اور عذر خواہی اس کے کام نہیں آئے گی۔

یہ حدیث شیئر کریں