مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کسب اور طلب حلال کا بیان ۔ حدیث 1221

توکل اور صبر کا بیان

راوی:

لغت میں وکل اوکول کا لفظ آتا ہے جس کے معنی ہیں سونپ دینا، سپرد کر دینا، کسی پر بھروسہ کر کے کام چھوڑ دینا اس کا اسم وکالت اور رکالت ہے اسی لفظ سے توکل نکلا ہے جس کے معنی اپنے عجز و بیچارگی کو ظاہر کرنے اور دوسرے پر اعتماد وبھروسہ کرنے ہیں، اس کا اسم تکلان ہے، اصطلاح شریعت میں توکل اس کو کہتے ہیں کہ بندہ اپنے معاملہ و کام کو اللہ کے سپرد کر دے اپنی تدبیر وسعی کو ترک کر دے اور اپنی ذاتی طاقت وقدرت سے بے پرواہ ہو کر تقدیر اور رضائے الٰہی پر کامل اعتماد کرے، یعنی اس بات پر یقین رکھے کہ اپنی تدبیر وسعی اور ذاتی طاقت وقدرت ، اللہ کی مشیت اور اس کے فیصلہ کو بدل نہیں سکتا، جو لکھا ہی نہیں گیا وہ رونما نہیں ہو سکتا۔
یوں تو توکل کا تعلق تمام امور اور معاملات پر ہوتا ہے لیکن اکثر اس کا استعمال رزق کے بارے میں ہوتا ہے۔ اور بات بھی یہی ہے کہ توکل کا جو اصل مفہوم ہے وہ اس بات پر اعتماد وبھروسہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے رزق کا ضامن ہے۔ حصول معاش کے لئے جائز وحلال ظاہری وسائل وذرائع کو ترک کرنا گو توکل کے صحیح ہونے کی شرط نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ اصل اعتماد وبھروسہ ان وسائل وذرائع پر نہ ہو۔ چنانچہ توکل کا تعلق اصل میں دل سے ہے اگر دل میں حق تعالیٰ کے ضامن ہونے کا یقین جاگزین ہو گیا تو توکل کا مفہوم پورا ہو جائے گا۔ گویا اعضاء عمل کو معطل کر دینا اور ہاتھ پاؤں ڈال کر اپاہج بن جانا توکل کے صحیح ہونے کے لئے لازم نہیں ہوگا اور نہ حصول معاش کے لئے ظاہری تدبیر دستی کرنا اس کے منافی ہوگا رہی یہ بات کہ بعض زاہدان طریقت اور درویش صفت طالبان معرفت حصول معاش کے ظہری اسباب و وسائل کو ترک کر دیتے ہیں تو ان کا وہ عمل محض ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مقام توکل ثابت ہو جائے نفس زیادہ سے زیادہ ریاضت ومجاہدہ میں مشغول رہے اور نظر امید اسباب و ذرائع سے منقطع ہو جائے، نیز اس امر پر کامل یقین حاصل ہو جائے کہ ظاہری اسباب وذرائع رزق پہنچنے کے لئے شرط کا درجہ نہیں رکھتے۔
بعض حضرات نے توکل کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ بندہ کا حق اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر اعتماد ویقین کے سبب حصول معاش کے اسباب وذرائع اور کسب وعمل کی پابندیوں سے مطلق آزاد ہو جانا، لیکن یہ توکل کا وہ مقام ہے جو ابتدائی حالت میں اختیار کیا جاتا ہے یا " آزاد" ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بندہ ان اسباب و وسائلہ اور کسب وعمل ، رزق پہنچنے کے لئے حقیقی موثر ومسبب ہیں، چنانچہ جو بندہ توکل کے آخری مرحلہ پر پہنچ جاتا ہے اور اس مقام کا منتہی ہوتا ہے اس کا اسباب و وسائل اور کسب وعمل کو اختیار کرنا، اس کے حق میں توکل کے منافی نہیں ہوتا، اس کو اللہ کی رزاقیت پر کامل یقین واعتماد اس وقت بھی حاصل رہتا ہے جب وہ اپنی روزی کے لئے اسباب و وسائل اور کسب وعمل میں مشغول ہوتا ہے اور اس وقت بھی اس کے اس یقین واعتماد میں ذرہ برابر بھی رخنہ نہیں پڑتا جب وہ ان چیزوں کو بالکل ترک کر دیتا ہے، مثلا اگر وہ منتہی کھجور کا پودا لگائے اور خرق عادت کے طور پر (یعنی خلاف عادت) وہ پودا اسی لمحہ بارآور ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت صناعی پر اس کا یقین واعتماد اس صورت میں اور اس صورت میں کہ کھجور کا پودا وہ عادت ومحمول کے مطابق کئی سال کے بعد پھل لائے یکساں ہوتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے دنیاوی اسباب و وسائل کے ذریعہ اور ظاہری عوامل و مسببات کی تربیت کے ساتھ وجود پذیر ہوتی ہے تو اس صورت میں صانع کی کمال قدرت کا مشاہدہ زیادہ یقین واعتمال اور زیادہ پر تاثیر انداز میں ہوتا ہے کیونکہ اسباب کے بغیر یعنی خرق عادت کے طور پر جو چیز سامنے آتی ہے اس میں محض وہی ایک فعل ہوتا ہے، جب کہ ظاہری اسباب و وسائل کے ذریعہ ظاہر ہونے والی چیز کتنے ہی مضبوط ومربوط افعال وحالات اور کتنے ہی محکم احکام وقوانین قدرت کا مظہر ہوتی ہے، علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی مد نظر رہنی چاہئے کہ اسباب و وسائل کو ترک کر دینا گویا ان چیزوں کو معطل وبیکار بنا دینا ہے جن کو حق تعالیٰ نے انسان ہی کے لئے پیدا کیا ہے اور جن کو اختیار کرنا منشاء قدرت کے خلاف نہیں ہے۔
عنوان باب کا دوسرا جزء صبر ہے لغت میں صبر کے معنی ہیں رکنا منع کرنا ، نفس کو کسی چیز سے باز رکھنا، فارسی میں اس کو شیکیبائی کہتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں صبر اس کو کہتے ہیں کہ نیکی اور برائی کے درمیان کشمکش کے وقت اپنے نفس کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ نیک کو اختیار کرے اور برائی سے باز رہے۔ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ فرماتے ہیں کہ صبر کا مفہوم ہے ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ حظوظ نفس کے جال سے باہر آنا، اور نفس کو اس کی محبوب ومرغوب چیزوں سے باز رکھنے پر کاربند رہنا۔
عوارف میں لکھا ہے " صبر" کی جو اقسام ہیں ان میں سب سے اعلیٰ قسم کا وہ صبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے تئیں کیا جائے بایں طور کہ اس کی طرف متوجہ وانابت، صدق واخلاص کے ساتھ ہو، اس کی ذات صفات اور کمال قدرت میں استغراق ومراقبہ دوامی ہو، اور نفس کی تمام خواہشات وخیالات کو یکسر منقطع کر دیا جائے۔ نیز بیان کیا کہ ۔ صبر فرض بھی ہے اور نفل بھی، فرض صبر تو وہی ہے جو فرائض کی ادائیگی اور حرام چیزوں کے ترک کرنے پر اختیار کرنا پڑتا ہے، اور نفل صبر کی جو صورتیں ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ (١) فقر و افلاس اور شدائد وآلام پر صبر کرنا۔ (٢) کوئی صدمہ وتکلیف پہنچنے پر صبر کرنا (٣) اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کو چھپانا۔ (٤) شکوہ وشکایت سے اجتناب کرنا۔ (٥) باطنی احوال و کر امات کو چھپانا۔ واضح رہے کہ فرض اور نفل دونوں طرح صبر کی بہت اقسام اور صورتیں ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ بہت ہیں جو صبر کی تمام ہی اقسام پر عامل وکاربند نہیں رہ سکتے جیسا کہ بیان کیا گیا۔ اگرچہ صبر کی بہت اقسام ہیں اور ان کا اطلاق بہت سی صورتوں پر ہوتا ہے مگر عام طور پر اس کا اطلاق خصوصیت سے مصائب وآفات اور ناگوار وناپسندیدہ امور کو انگیز کرنے پر ہوتا ہے، جیسا کہ " شکر" ایک وسیع المفہوم لفظ ہے اور اپنے اطلاق کے اعتبار سے اس کی بہت سی قسمیں ہیں مگر خاص طور پر اس کا استعمال حصول نعمت ورزق کی صورت میں ہوتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں