مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ رونے اور ڈرنے کا بیان ۔ حدیث 1241

ریاء کی تعریف

راوی:

" ریاء" رویت سے مشتق ہے اور صراح میں لکھا ہے کہ ریاء کے معنی ہیں اپنے آپ کو لوگوں کی نظر میں اچھا بنا کر پیش کرنا۔ اور عین العلم میں لکھا ہے کہ ریاء کا مطلب یہ ہے اپنی عبادت ونیکی کا سکہ جمانا اور اس کے ذریعہ لوگوں کی نظر میں اپنی قدر و منزلت چاہنا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ریاء کا تعلق خاص طور پر ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے جو عبادت ونیکی کے ظاہری عمل کہلاتے ہیں اور جو چیزیں کہ از قسم عبادت نہ ہوں جیسے کثرت مال ومتاع، علم وذہانت کی فراوانی ، اشعار وغیرہ کا یاد رکھنا اور نشانہ بازی کی مہارت وغیرہ تو ان میں دکھاوے کے لئے کئے جانے والے کام کو ریاء نہیں کہا جاتا بلکہ وہ افتخار وتکبر (ناز و گھمنڈ) کی ایک قسم کہلاتا ہے اسی طرح نیکی وعبادت کے ظاہری اعمال میں بھی اگر کوئی کام اس صورت میں لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا جائے جب کہ اس کا مقصد عزت وجاہ کی طلب نہ ہو، جیسا کہ بعض مشائخ اپنے مریدوں کو تلقین وتعلیم، لوگوں کے دلوں کو نیک اعمال کی طرف مائل کرنے اور ان کو اتباع وپیروی کی طرف راغب کرنے کے لئے بعض اعمال اس طرح کرتے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھیں تو یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ریا نہیں کہلائے گا اگرچہ ظاہر میں ان کا وہ عمل ریاء کاری معلوم ہو اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ ریاء الصدیقین خیر من اخلاص المریدین یعنی اونچے درجہ کے مشائخ اور بزرگوں کا ریاء مریدین کے اخلاص یعنی عدم ریاء کاری سے بہتر ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ریاء اصل میں اس چیز کا نام ہے کہ کسی شخص کی ذات میں واقعۃً کوئی صفت وکمال ہو اور وہ اپنے اس واقعی وصف وکمال پر لوگوں کے سامنے نمایاں کرے اور یہ خواہش رکھے کہ لوگ اس کے اس وصف وکمال کو جانیں تاکہ ان کی نظر میں قدر و منزلت اور عزت و وقعت حاصل ہو۔ پس جو شخص کسی ایسے وصف وکمال کو اپنی طرف منسوب کر کے لوگوں پر ظاہر کرے کہ جو واقعۃ اس کی ذات میں نہیں ہے تو اس کو ریاء نہیں بلکہ خالص کذب اور منافقت کہا جائے گا اسی پر قیاس کر کے یہ کہا گیا ہے کہ غیب اس چیز کا نام ہے کہ کسی شخص کی پیٹھ پیچھے اس کا وہ عیب بیان کیا جائے تو واقعتا اس کی ذات میں موجود ہو، اور اگر اس کی طرف منسوب کر کے کوئی ایسا عیب بیان کیا جائے جو حقیقت کے اعتبار سے اس کی ذات میں نہیں ہے تو اس کو افتراء اور بہتان کہیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں