مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان ۔ حدیث 1272

فسق وفجور کی کثرت پوری قوم کے لئے موجب ہلاکت ہے

راوی:

وعن زينب بنت جحش أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل يوما فزعا يقول لا إله إلا الله ويل للعرب من شر قد اقترب فتح اليوم من ردم يأجوج ومأجوج مثل هذه وحلق بأصبعيه الإبهام والتي تليها . قالت زينب فقلت يا رسول الله أفنهلك وفينا الصالحون ؟ قال نعم إذا كثر الخبث . متفق عليه .

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں ایسی حالت میں تشریف لائے کہ جیسے بہت گھبرائے ہوئے ہیں پھر فرمانے لگے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں۔ افسوس صد افسوس عرب کے اس شروفتنہ پر جو اپنی ہلاکت آفرینی کے ساتھ قریب آ پہنچا ہے ۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اس قدر سوراخ ہو گیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگوٹھے اور برابر والی انگلی کے ذریعہ حلقہ بنایا ، حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم اس صورت میں بھی ہلاک کر دئیے جائیں گے جب کہ ہمارے درمیان صالح وپاکباز لوگ موجود ہوں گے ؟ کیا ہمارے درمیان اللہ کے نیک بندوں کے وجود کی برکت ان فتنوں کے پھیلنے اور آفات وبلاؤں کے نازل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنے گی؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں تمہارے درمیان علماء اور بزرگارن دین کی موجودگی کے باوجود تمہیں ہلاکت وتباہی میں مبتلا کیا جائے گا جب کہ فسق وفجور کی کثرت ہوگی (یعنی جب معاشرہ میں برائیاں بہت پھیل جائیں گی اور ہر طرف فسق وفجور کا دور دورہ ہوگا تو ان برائیوں اور فسق وفجور کے سبب نازل ہونے والے فتنہ وآلام اور آفات کو صلحاء اور بزرگوں کی موجودگی اور ان کی برکت بھی نہیں روک سکے گی۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" شر" سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد اس فتنہ وفساد اور قتل وقتال کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جس کی ابتداء مستقبل میں ہونے والی تھی اور جس کا شکار سب سے پہلے اہل عرب بننے والے تھے، چنانچہ قلب نبوت نے اہل اسلام کو افتراق وانتشار میں مبتلا کرنے والے جن واقعات کا بہت پہلے ادراک کر لیا تھا اور مذکورہ ارشاد کے ذریعہ گویا ان کے بارے میں پیش گوئی فرما دی تھی ان کی ابتداء خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سانحہ شہادت سے ہوئی اور جن کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں اب تک جاری ہے۔ بعض حضرات نے یہ مراد بیان کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ جب اہل عرب کو اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سبب دشمنوں کے مقابلہ پر فتوح حاصل ہوں گی، دوسرے ملکوں پر غلبہ واقتدار حاصل ہوگا اور مال ودولت کی ریل پیل ہوگی تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ لوگوں کے خلوص وللہیت میں کمی آ جائے گی، حکومت واقتدار اور مال و زر سے رغب ومحبت پیدا ہو جائے گی، دنیا طلبی وجاہ پسندی اور خود غرضی کا عفریب باہمی مخالفت ومخاصمت اور افتراق وانتشار کے ذریعہ پوری ملت کو متاثر کر دے گا۔
" حلقہ بنایا " یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیوں کے ذریعہ حلقہ بنا کر دکھایا کہ اس دیوار میں آج تک کبھی کوئی سوراخ نہیں ہوا تھا ۔ لیکن آج اس میں اتنا بڑا سوراخ ہو گیا ہے جتنا کہ ان دونوں انگلیوں کے ذریعہ بنایا گیا حلقہ ہے۔ واضح رہے کہ اس دیوار میں سوراخ کا ہو جانا قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جس طرح کہ عرب اور اہل عرب میں فتنہ وفساد کا بیج پڑ جانا اور برائیوں کے پھیل جانا بھی قیامت کے قریب آ جانے کی ایک دلیل ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یاجوج ماجوج کی دیوار میں سوارخ ہو جانے کی بات کہہ کر گویا اس علاقہ سے اٹھنے والے ایک عظیم فتنہ اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پہنچنے والے سخت نقصان کی طرف اشارہ کیا، چنانچہ تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ چنگیزیت کی صورت میں اسی علاقہ سے اٹھا اور جس نے بڑی بڑی اسلامی حکومتوں کو نقصان پہنچایا یہاں تک کہ ہلاکو خان کی سربراہی میں تاتاری ترکوں کے سیلاب نے اسلامی خلافت کو بہا ڈالا، خلیفہ معتصم باللہ کو قتل کیا بغداد کو لوٹ کر تباہ وتاراج کیا اور لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا اور پوری ملت اسلامیہ کو بڑی بڑی جہادوں سے دوچار کیا۔
لفظ " خبث" خ اور ب کے زبر کے ساتھ فسق وفجور اور کفر شرک کے معنی میں ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس کے معنی بدکاری زنا کے ہیں حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی جگہ آگ لگتی ہے بھڑک اٹھتی ہے تو پھر وہ ہر ایک چیز کو جلا ڈالتی ہے کیا خشک اور کیا تر، ہر ایک کو بھسم کر دیتی ہے۔ حلال اور حرام، پاک اور ناپاک جو بھی چیز اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آتی ہے جل کر خاک ہو جاتی ہے ، مومن اور کافر، موافق اور مخالف کسی کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو شخص بھی اس کی زد میں آ جاتا ہے راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے اسی طرح عذاب الٰہی کا معاملہ ہے کہ جب کسی ملک میں ، کسی علاقہ میں اور روئے زمین کے کسی حصہ پر برائیون کا دور دورہ ہو جاتا ہے، بدکاریاں عام ہو جاتی ہیں فواحش کی کثرت ہو جاتی ہے اور فسق وفجور کا غلبہ ہو جاتا ہے اور اس کے سبب وہاں کے لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر کسی کی کوئی تخصیص نہیں رہ جاتی، بدکار اور سرکش لوگ تو تباہ وبرباد ہوتے ہیں نیکو کار وپاکباز لوگ بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں یہ اور بات ہے کہ جب قیامت میں ساری مخلوق کو دوبارہ آتھایا جائے گا تو اس وقت ہر شخص کے ساتھ اس کے عمل کے مطابق ہی سلوک ہوگا۔
ایک نسخے میں لفظ خ کے پیش اور ب کے جزم کے ساتھ یعنی خبت منقول ہے جس کے معنی فواحش اور فسوق کے ہیں، ویسے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں