مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان ۔ حدیث 1277

ایک نصیحت ایک آرزو

راوی:

وعن أبي ذر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إني أرى ما لا ترون وأسمع ما لا تسمعون أطت السماء وحق لها أن تئط والذي نفسي بيده ما فيها موضع أربعة أصابع إلا وملك واضع جبهته ساجد لله والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا وما تلذذتم بالنساء على الفرشات ولخرجتم إلى الصعدات تجأرون إلى الله . قال أبو ذر يا ليتني كنت شجرة تعضد . رواه أحمد والترمذي وابن ماجه .

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے اور جو کچھ میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے (یعنی قیامت کی علامتیں، قدرت کی کرشمہ سازیوں کی نشانیاں اور اللہ تعالیٰ کی صفات قہریہ وجلالیہ جس طرح میرے سامنے ہیں اور میں ان کو دیکھتا ہوں اس طرح نہ تمہارے سامنے ہیں اور نہ تم انہیں دیکھتے ہو، نیز احوال آخرت کے اسرار واخبار، قیامت کی ہولنا کیوں اور دوزخ کے عذاب کی شدت وسختی کی باتوں کو جس طرح میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے) آسمان میں سے آواز نکلتی ہے اور اس میں سے آواز کا نکلنا بجا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں فرشتے اللہ کے حضور اپنا سر سجدہ ریز کئے ہوئے نہ پڑے ہوں، اللہ کی قسم اگر تم اس چیز کو جان لو جس کو میں جانتا ہوں تو یقینا تم بہت کم ہنسو اور زیادہ رونے لگو۔ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لذت حاصل کرنا چھوڑ دو اور یقینا تم اللہ سے نالہ وفریاد کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل جاؤ جیسا کہ رنج اٹھانے والوں اور غموں سے تنگ آ جانے والوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور صحرا صحرا جنگل جنگل گھومتے پھرتے ہیں تاکہ زمین کا بوجھ کم ہو اور دل کچھ ٹھکانے لگے۔ حضرت ابوذر نے یہ حدیث بیان کر کے ارادہ حسرت ودردناکی کہا کہ کاش میں درخت ہوتا جس کو کاٹا جاتا۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
لفظ " اطت" دراصل " اط" سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں آواز نکالنا ، پالان اور زین وغیرہ کا چڑچڑانا، اونٹ کا تعب کی وجہ سے بلبلانا، اس حدیث میں آسمان سے آواز نکلنے کی جو بات فرمائی گئی ہے اس کا مفہوم بالکل ظاہر ہے کہ فرشتوں کی کثرت وازدہام اور ان کے بوجھ کی وجہ سے آسمان میں سے آواز نکلتی ہے جیسا کہ سواری کا جانور سواری کے بوجھ کی وجہ سے ایک خاص قسم کی آواز نکالتا ہے یا کسی تخت وپلنگ پر جب زیادہ لوگ بیٹھ جاتے ہیں تو وہ چڑچڑانے لگتا ہے یا آسمان میں سے نکلنے کا مطلب آسمان کا اللہ کے خوف سے نالہ وفریاد کرنا ہے اور اس جملے کا مقصد یہ آگاہی ہے کہ جب آسمان ایک غیر ذی روح اور منجمد چیز ہوتے ہوئے اور مقدس ملائکہ کی قرار گاہ کی حیثیت رکھنے کے باوجود خوف الٰہی سے نالہ وفریاد کرتا ہے تو انسان کہ جو جاندار ہے اور گناہ ومعصیت کی آلودگی رکھتا ہے ، وہ کہیں زیادہ اس لائق ہے کہ خوف الٰہی سے گریہ وزاری اور نالہ وفریاد کرے۔ یہ معنی حدیث کے اصل مقصد سے زیادہ قریب اور مناسب تر ہیں۔
" اپنا سر سجدہ ریز کئے ہوئے نہ پڑے ہوں" سے مراد فرشتوں کا اللہ تعالیٰ کی عبادت وتابعدای میں مشغول ہونا ہے۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے تاکہ وہ بات بھی اس جملے کے دائرہ مفہوم میں آ جائے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر فرشتہ اللہ کی عبادت وتابعداری میں مشغول ہے کہ کچھ تو قیام کی حالت میں عبادت گزار ہیں، کچھ رکوع کی حالت میں ہیں اور کچھ سجدے میں پڑے ہوئے ہیں یا یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمان میں سے کسی خاص آسمان کا ذکر فرمایا ہے اور اس آسمان میں جو فرشتے ہیں وہ سب کے سب سجدہ کی ہی حالت میں پڑے ہوئے اللہ کی عبادت کر رہے ہیں۔
" صعدات" اصل میں " صعد" کی جعم ہے اور صعد جمع ہے صعید کی جیسے طرقات جمع ہے طرق کی اور طرق جمع ہے طریق کی ۔ صعید کے لغوی معنی مٹی، راستہ اور زمین کے بلند حصے کے ہیں اور یہاں حدیث میں اس سے مراد جنگل ہے۔
" کاش میں درخت ہوتا " یعنی انسان ہونے کی حیثیت سے گناہوں اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا بڑا مشکل ہے شیطان ہر وقت پیچھے لگا رہتا ہے نہ جانے کب اس کا داؤ چل جائے گا اور گناہ ومعصیت کا ارتکاب ہو جائے۔ جس کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی اور اس کا عذاب مول لینا پڑ جائے گا۔ لہٰذا حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آرزو ظاہر کی کہ کاش میں انسان نہ ہوتا تاکہ کل قیامت کے دن گناہوں کی آلودگی کے ساتھ نہ اٹھتا۔ اور جس طرح ایک درخت کو کاٹ ڈالا جاتا ہے تو وہ سرے سے مٹ جاتا ہے، اسی طرح میں بھی ہوتا کہ مجھے کاٹ کر پھینک دیا جاتا اور میں آخرت میں ندامت وشرمندگی اور عذاب سے بچ جاتا ۔ واضح رہے کہ اس طرح کی غمناک اور درد انگیز آرزوئیں دوسرے بڑے صحابہ سے بھی منقول ہیں، مثلا ایک صحابی نے کہا تھا کہ کاش، میں بکری ہوتا جس کو لوگ کاٹ کر کھا جاتے ہیں۔ دوسرے صحابی نے کہا کاش میں پرندہ ہوتا کہ وہ جہاں چاہتا ہے بیٹھ جاتا ہے اور جہاں چاہتا ہے چلا جاتا ہے۔ اس پر کوئی فکر اور کسی چیز کا دباؤ نہیں ہوتا یہ سب مقدس صحابہ وہ تھے جن کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی اور آخرت کے اعتبار سے ان کی عافیت کے بخیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا لیکن جب ان پاک نفس حضرات کے احساس اور فکر آخرت کا یہ حال تھا تو دوسروں کو کیا کہا جا سکتا ہے، اگرچہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ ہر مومن انشاء اللہ مغفرت وبخشش سے نوازا جائے گا اور اس کی عاقبت بخیر ہوگی لیکن بارگاہ بے نیازی کا خوف ہی کمر توڑے ڈالتا ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے
کیا کیا نہ اپنے زہد واطاعت پہ ناز تھا
بس دم نکل گیا جو سنا بے نیاز ہے

یہ حدیث شیئر کریں