مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1291

قحط الرجال

راوی:

عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما الناس كالإبل المائة لا تكاد تجد فيها راحلة . متفق عليه . ( متفق عليه )

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ آدمی اختلاف حالات اور تغیر صفات کے اعتبار سے ان سو اونٹوں کے مانند ہے جن میں سے تم ایک ہی کو سواری کے قابل پا سکتے ہو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" راحلۃ" اس اونٹ کو کہتے ہیں جو تندرست وتوانا ہوتا ہے اور سواری وباربرداری کے کام کے لئے بہت اچھا اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لفظ میں حرف ۃ اظہار مبالغہ کے لئے ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی تو بہت ہیں جیسے اونٹ بہت ہوتے ہیں، لیکن جس طرح اونٹوں میں سے سواری اور باربرداری کے قابل چند ہی اونٹ نکلتے ہیں اسی طرح کام کے آدمی کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت ودریافت کے قابل ہوں اور صحبت دریافت کا حق ادا کر سکیں اور ان کے نیک مقصد میں ان کے معین ومددگار ثابت ہو سکیں، بہت کم ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ اس اعتبار سے سب سے بہتر زمانہ تھا کہ اس میں کام کے لوگ زیادہ تھے پھر بعد کے زمانہ میں اگرچہ پہلے زمانہ کی بہ نسبت ایسے لوگوں کی تعداد کم تھی لیکن آنے والے زمانہ کے اعتبار سے وہ تعداد یقینا زیادہ تھی اور پھر اس کے بعد کے زمانہ میں ایسے لوگوں کی تعداد اگرچہ دوسرے زمانے کی تعداد سے بھی کم تھی لیکن آنے والے زمانوں کے اعتبار سے یقینا بہت زیادہ تھی۔
حدیث " سو" کا جو عدد ذکر فرمایا گیا ہے وہ تحدید وتعین کے لئے نہیں ہے بلکہ اظہار کثرت کے لئے ہے حاصل یہ کہ لوگوں کے جنگل میں ایسی ہستی کا وجود کہ جس پر " مخلص عالم باعمل" کا اطلاق کیا جا سکے کیمیا کی طرح نایاب ہوتا ہے، اسی لئے ہر زمانہ کے ارباب حال یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ زمانہ " قحط الرجال" کا ہے ۔ حضرت سہل تستری کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک دن جب مسجد میں لوگوں کو اس کثرت کے ساتھ دیکھا کہ مسجد اندر اور باہر سے بھری ہوئی تھی تو فرمایا کہ کلمہ گو یقینا بہت ہیں لیکن ان میں مخلص لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس مفہوم کو اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں کئی موقعوں پر بیان فرمایا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں