مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1299

کب زندگی بہتر ہوتی ہے اور کب موت؟

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان أمراؤكم خياركم وأغنياؤكم سمحاءكم وأموركم شورى بينكم فظهر الأرض خير لكم من بطنها . وإذا كان أمراؤكم شراركم وأغنياؤكم بخلاؤكم وأموركم إلى نسائكم فبطن الأرض خير لكم من ظهرها . رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب .

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جب تمہارے قائد وسردار وہ لوگ ہوں کہ جو تم میں کے بہترین لوگ ہیں، تمہارے دولت مند لوگ سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشوروں سے انجام پاتے ہوں (یعنی مسلمان ایک مرکز پر متحد ومتفق ہوں ، اور اپنے تمام معاملات وامور ایک رائے ہو کر طے کرتے ہوں) تو اس وقت زمین کی پشت تمہارے لئے زمین کے پیٹ سے بہتر ہوگی (یعنی ایسے مبارک زمانہ میں زندگی سے موت سے بہتر ہوگی کیونکہ اس صورت میں تمہیں کتاب وسنت کے مطابق عمل کرنے اور دین کی راہ پر چلنے کی توفیق نصیب ہوگی، اور ظاہر ہے وہ لوگ نہایت خوش بخت ہیں جنہیں حسن عمل کے ساتھ طویل زندگی ملے اور جب تمہارے قائد وسردار وہ لوگ ہوں جو تم میں کے بدترین یعنی فاسق وفاجر اور ظالم لوگ ہیں تمہارے دولت مند لوگ بخیل ہوں اور تمہارے معاملات کی باگ دوڑ عورتوں کے ہاتھ میں ہو، تو اس وقت زمین کا پیٹ تمہارے لئے زمین کی پشت سے بہتر ہوگا (یعنی ایسے زمانہ میں مرنا، جینے سے بہتر ہوگا۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرہ بہت بدنصیب ہوتا ہے جس میں لوگ اپنے معاملات عورتوں کے سپرد کر دیتے ہیں، درآنحالیکہ عورتیں مردوں کی بہ نسبت عقل اور دین دونوں میں کمزور اور ناقص ہونے کی وجہ سے اس طرح کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں ، اسی لئے فرمایا ش اور وہن وخالفوھن یعنی عورتوں سے مشورہ ضرور لو لیکن کرو ان کی رائے کے خلاف، اسی طرح وہ مرد بھی عورتوں ہی کے حکم میں ہیں جو انہی جیسے احوال رکھتے ہیں یعنی جن مردوں پر جاہ ومال کی محبت کا غلبہ ہوتا ہے ، جو یہ نہیں جانتے کہ کیا چیز دین کو نقصان پہنچاتی ہے، کونسا کام دین وشریعت کے خلاف ہے کسی بھی چیز اور کسی بھی معاملہ کا کیا انجام ہو سکتا ہے تو وہ بھی یقینا عورتوں کی طرح عقل ودین دونوں کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں لہٰذا ایسے مردوں کو بھی اپنا مقتدا و رہنما بنانا اور اپنی زمام کار ان کو سونپ دینا پورے معاشرہ کو تباہی وخرابی سے دوچار کرنا ہے۔
حدیث کا ظاہری اسلوب یہ تقاضا کرتا ہے کہ جب پہلے جزء میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تمہارے معاملات باہمی مشوروں سے طے پاتے ہوں تو دوسرے جز میں یوں فرمانا چاہئے تھا کہ تمہارے معاملات باہمی اختلاف رائے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ لیکن اس طرح فرمانے کی بجائے یہ فرمانا کہ تمہارے معاملات کی باگ دوڑ عورتوں کے ہاتھ میں ہو۔ گویا اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ آپس میں پیدا ہونے والے اختلاف اور تنازعات عام طور پر عورتوں کی اتباع کرنے اور ان کے کہے پر چلنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں