مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1312

قلب انسانی پر فتنوں کی یلغار

راوی:

وعنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول تعرض الفتن على القلوب كالحصير عودا عودا فأي قلب أشربها نكتت فيه نكتة سوداء وأي قلب أنكرها نكتت فيه نكتة بيضاء حتى يصير على قلبين أبيض بمثل الصفا فلا تضره فتنة ما دامت السماوات والأرض والآخر أسود مربادا كالكوز مجخيا لا يعرف معروفا ولا ينكر منكرا إلا ما أشرب من هواه رواه مسلم . ( متفق عليه )

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " لوگوں کے دلوں پر فتنے اس طرح ڈالے جائیں گے جس طرح چٹائی کے تنکے ہوتے ہیں یعنی جس طرح چٹائی میں تنکے ایک کے پیچھے ایک لگائے جاتے ہیں اسی طرح سے دلوں پر ایک کے بعد ایک فتنے ڈالے جائیں گے پس جو دل ان فتنوں کو قبول کرے گا اس میں سیاہ نکتہ ڈال دیا جائے گا اور جو دل ان فتنوں کو قبول کرنے سے انکار کرے گا اس میں سفید نکتہ پیدا کر دیا جائے گا پس انسان ان فتنوں کے پیش آنے اور ان کے دلوں پر ان فتنوں کی تاثیر وعدم تاثیر کے اعتبار سے دو قسموں میں بٹ جائیں گے (یا یہ کہ انسان کے دل مذکورہ اعتبار کے مطابق دو قسم کے ہو جائیں گے) ایک تو سفید مثل سنگ مرمر کے کہ جس پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی واضح رہے کہ اس تشبیہ میں محض سفیدی مراد نہیں ہے بلکہ سختی اور قوت کا اعتبار بھی ملحوظ رکھا گیا ہے چنانچہ اس طرح کے دل پر کوئی بھی فتنہ اثر انداز اور مسرت رساں نہیں ہوگا جب تک کہ زمین وآسمان قائم وباقی ہیں (یعنی اس دل کی یہ کیفیت ہمیشہ باقی رہے گی) اور دوسرا راکھ کے رنگ جیسا سیال دل، اوندھے برتن کی مانند (کہ اس میں جو کچھ بھی ہو گر پڑے، مطلب یہ کہ اس طرح کا دل راکھ کی مانند سیاہ اور اوندھے برتن کی طرح ایمان ومعرفت کے نور سے خالی ہوگا چنانچہ اس طرح کا دل نہ تو نیک واچھے اور مشروع کاموں کو پہچانے گا اور نہ برے کاموں کو برا جانے گا، وہ تو بس اس چیز سے مطلب رکھے گا جو از قسم خواہشات اس میں رچ بس گئی ہے اور جس کی محبت کا وہ اسیر بن چکا ہے۔ (یعنی وہ طبعی طور پر نفسانی خواہشات کا غلام ہوگا اور اچھی وبری کا امتیاز کئے بغیر ہر اس چیز کے پیچھے بھاگے گا جو اس کے نفس کو مرغوب ہوگی۔ (مسلم)

تشریح
" فتنوں " سے مراد بلا وآفات اور وہ چیزیں ہیں جو انسان کے ذہن وفکر اور قلب وجسم کو تعب وتکلیف اور رنج ونقصان میں مبتلا کر لیتی ہیں لیکن بعض حضرات نے " فتنوں" کی مراد، فاسد و گمراہ نظریات، باطل افکار اور نفسانی شہوت وخواہشات کو قرار دیا ہے۔
لفظ " عودا " تین طرح سے نقل کیا گیا ہے، ایک روایت میں عین کے پیش اور دال مہملہ کے ساتھ ہے اور جیسا کہ دوسری روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے، یہی زیادہ مشہور ہے۔ اس صورت میں حدیث کے اس جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ دلوں میں فتنے اس طرح ایک کے بعد ایک دو آئیں گے جیسا کہ چٹائی بنتے وقت تنکے ایک کے بعد ایک داخل کئے جاتے ہیں، اس تشبیہ سے مراد دلوں پر فتنوں کا اس طرح پیش آنا ہے جس طرح چٹائی بننے والے کے سامنے تنکے یکے بعد دیگرے پیش ہوتے رہتے ہیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس تشبیہ سے مراد یہ ہے کہ وہ فتنے دل پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسری روایات میں یہ لفظ عین کے زیر اور ذال کے ساتھ یعنی عوذا ہے اس صورت میں یہ لفظ ان فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ گفتگو وکلام کے دوران کفر ومعصیت کے ذکر کے بعد نعوذ باللہ یا معاذ اللہ کہا جاتا ہے۔ تیسری روایت میں یہ لفظ عین کے زیر اور دال کے مہملہ کے ساتھ (یعنی عودا) ہے اور اس سے مراد عود وتکرار ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ فتنے دل پر باربار واقع ہوں گے۔ واضح رہے کہ پہلی روایت میں تو یہ لفظ منصوب اور مرفوع دونوں طرح نقل کیا گیا ہے اور دوسری وتیسری روایت میں صرف منصوب منقول ہے۔
" اشربہا " میں لفظ مشرب صیغہ مجہول کے ساتھ ہے۔ کہا جاتا ہے اشرب فلاں حب فلاں یعنی فلاں شخص کے دل میں فلاں شخص کی محبت رچ گئی ہے۔ یا فلاں شخص کے دل میں فلاں شخص کی محبت کا فتنہ بیٹھ گیا ہے، یا فلاں شخص کے دل پر فلاں شخص کی محبت کا رنگ چڑھ گیا ہے جیسا کہ کسی کپڑے پر کوئی رنگ چڑھ جاتا ہے۔ چونکہ شرب کے اصل معنی پینے کے ہیں اس لئے کڑے پر رنگ چڑھنے کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ گویا وہ کپڑا اس رنگ کو پیتا ہے اور اس میں رنگ جاتا ہے پس " جو دل ان فتنوں کو قبول کر لے گا " کا مطلب یہ ہے کہ جس میں کجی ہوگی اور جس کا میلان و رجحان برائی کی طرف ہوگا اس میں وہ فتنے رچ بس جائیں گے اور گویا وہ دل ان فتنوں کو اس طرح قبول کر لے گا جس طرح کوئی سفید کپڑا کسی بھی رنگ کو فورا قبول کر لیتا ہے۔
" نکتہ" اصل میں داغ کو کہتے ہیں اور اس نشان کے معنی میں آتا ہے جو لکڑی وغیرہ کے کریدنے اور چھونے سے زمین پر پیدا ہو جاتا ہے۔ نیز " نکتہ" کا لفظ " نقطہ کے معنی میں بھی آ جاتا ہے اور خاص طور پر اس نقطہ (دھبہ) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو مخالف رنگ کی چیز میں ہو جیسے سفید چیز میں سیاہ نقطہ اور سیاہ چیز میں سفید نقطہ۔
حتی تصیر علی قلبین میں لفظ تصیر حرف ت کے ساتھ بھی ہے اور حرف ی کے ساتھ بھی۔ اگر یہ لفظ ی کے ساتھ یعنی یصیر پڑھا جائے تو اس صورت میں اس کی ضمیر انسان کی طرف راجع ہوگی جیسا کہ سیاق کلام سے مفہوم ہوتا ہے اور اگر اس لفظ کو ت کے ساتھ تصیر پڑھا جائے تو اس کی ضمیر قلوب کی طرف راجع ہوگی جو صریحا مذکورہ بھی ہے۔
" مرباد" م کے پیش اور ر کے جزم اور دال کی تشدید کے ساتھ، کے معنی خاکستر اور سیاہ رنگ کے ہیں۔ " رمد " کا لفظ بھی خاکستر رنگ کے معنی میں آتا ہے اور " ارمداد" کے معنی ہیں خاکستری رنگ کا ہونا۔

یہ حدیث شیئر کریں