مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 1314

جب فتنوں کا ظہور ہو تو گوشہ عافیت تلاش کرو

راوی:

وعنه قال كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وكنت أسأله عن الشر مخافة أن يدركني قال قلت يا رسول الله إنا كنا في جاهلية وشر فجاءنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير من شر ؟ قال نعم قلت وهل بعد ذلك الشر من خير ؟ قال نعم وفيه دخن . قلت وما دخنه ؟ قال قوم يستنون بغير سنتي ويهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر . قلت فهل بعد ذلك الخير من شر ؟ قال نعم دعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها . قلت يا رسول الله صفهم لنا . قال هم من جلدتنا ويتكلمون بألسنتنا . قلت فما تأمرني إن أدركني ذلك ؟ قال تلزم جماعة المسلمين وإمامهم . قلت فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام ؟ قال فاعتزل تلك الفرق كلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتى يدركك الموت وأنت على ذلك . متفق عليه . وفي رواية لمسلم قال يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي ولا يستنون بسنتي وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس . قال حذيفة قلت كيف أصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك ؟ قال تسمع وتطيع الأمير وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك فاسمع وأطع .

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ تو اکثر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر ونیکی اور بھلائی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر و برائی کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں میں کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤ (یعنی دوسرے صحابہ تو عبادت وطاعت کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نیک عمل اور اچھے کام کر سکیں یا یہ کہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے رزق میں وسعت وخوشحالی کی دعا کرتے تھے تاکہ انہیں اطمینان وفراغت حاصل ہو اور اپنی دنیا کو آخرت کی فلاح وکامیابی کا ذریعہ بنا سکیں لیکن ان کے برخلاف میرا معمول دوسرا تھا، میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گناہ اور برائیوں کے بارے میں پوچھا کرتا تھا کہ ان سے اجتناب کر سکوں یا یہ کہ ان فتنوں کے بارے میں پوچھتا تھا جو اس دنیا میں ظہور پذیر ہو سکتے ہیں اور جو نہ صرف اخروی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ان کے برے اثرات دنیاوی خوشحالی اور رزق کی وسعت پر بھی پڑتے ہیں اور پوچھنے کی بناء یہ خوف ہوتا تھا کہ کہیں میں ان فتنوں میں مبتلا نہ ہو جاؤں یا ان کے برے اثرات واسباب مجھ تک نہ پہنچ جائیں چنانچہ اہل علم سے برائیوں کی واقفیت حاصل کر کے ان سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ایک بہترین طریق ہے۔ اسی لئے حکماء اور اطبا بلکہ بعض فضلاء نے اس طریق کو بطور اصل اختیار کیا ہے کہ ازالہ مرض سلسلہ میں پرہیز کو ملحوظ رکھنا دوا استعمال کرنے سے زیادہ بہتر ہے نیز کلمہ تو حید بھی اسی اصول کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے ما سوی اللہ کی نفی کی گئی ہے اس کے بعد الوہیت کو ثابت کیا گیا) حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ اپنی مذکورہ عادت کے مطابق ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ اسلام سے قبل جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے صدقہ میں ہمیں یہ ہدایت بخشی یعنی اسلام کی روشنی عطا فرمائی جس کی وجہ سے کفر ضلالت کے اندھیرے دور ہو گئے اور ہم گمراہیوں اور برائیوں کے جال سے باہر آ گئے تو کیا اس ہدایت وبھلائی کے بعد کوئی اور برائی وبدی پیش آنے والی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! (اس بھلائی کے بعد بھی برائی پیش آنے والی ہے)۔ میں نے عرض کیا تو کیا اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہوگا کہ جس کی وجہ سے دین وشریعت کا پھر بول بالا ہو جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہوگا لیکن اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہوگا لیکن اس برائی کے بعد جو بھلائی آئے گی اس میں کدورت ہوگی۔ میں نے عرض کیا کہ اس بھلائی کی کدورت کیا ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میں نے کدورت کی جو بات کہی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میرے طریقہ اور میری روش کے خلاف طریقہ و روش اختیار کریں گے۔ لوگوں کو میرے بتائے ہوئے راستہ کے خلاف راستہ پر چلائیں گے۔ اور میری سیرت اور میرے کردار کے خلاف سیرت وکردار اپنائیں گے تم ان میں دین دار بھی دیکھو گے اور بے دین بھی۔ میں نے عرض کیا ، کیا اس بھلائی کے بعد پھر کوئی برائی پیش آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اپنی طرف بلائی گے جو شخص ان کے بلاوے کو قبول کر کے دوزخ کی طرف جانا چاہے گا اس کو وہ دوزخ میں دھکیل دیں گے یعنی جو شخص ان کے بہکاوے میں آ کر ان گمراہیوں میں مبتلا ہوگا جو دوزخ کے عذاب کا مستوجب بناتی ہیں تو وہ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ ان کے بارے میں وضاحت فرمائیے کہ وہ کون لوگ ہوں گے آیا وہ مسلمانوں ہی میں سے ہوں گے یا غیر مسلم ہوں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ وہ ہماری قوم ، ہمارے ابناء جنس اور ہماری ملت کے لوگوں میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے (یعنی وہ لوگ عربی زبان رکھنے والے ہونگے یا یہ مراد ہے کہ ان کی گفتگو قرآن وحدیث کے حوالوں سے مزین اور پند و نصائح سے آراستہ ہوگی اور بظاہر ان کی زبان پر دین ومذہب کی باتیں ہوں گی مگر ان کے دل نیکی وبھلائی سے خالی ہوں گے) میں نے عرض کیا کہ تو پھر میرے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے (یعنی اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ کتاب وسنت پر عمل کرنے والے مسلمانوں کی جماعت کو لازم جاننا اور ان کے امیر کی اطاعت کرنا یعنی اہل سنت کے راستہ کو اختیار کرنا اور اہل سنت کا جو امام و مقتدا ہو اس کی اطاعت و رعایت کو ملحوظ رکھنا میں نے عرض کیا کہ اور اگر مسلمانوں کی کوئی مسلمہ جماعت ہی نہ ہو؟ اور نہ ان کا کوئی متفقہ امیر ومقتدا ہو بلکہ مسلمان مختلف جماعتوں میں منقسم ہوں اور الگ الگ مقتداؤں کے پیچھے چلتے ہوں تو اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایسی صورت میں تمہیں ان سب فرقوں اور جماعتوں سے صرف نظر کر کے یکسوئی اختیار کر لینی چاہئے اگرچہ اس یکسوئی کے لئے تمہیں کسی درخت کی جڑ میں پناہ کیوں نہ لینی پڑے جنگلوں میں چھپنا کیوں نہ پڑے اور اس کی وجہ سے سخت سے سخت مصائب وشدائد برداشت کیوں نہ کرنا پڑے اور ان جنگلوں میں گھاس پھوس کھانے پر قناعت تک کی نوبت کیوں نہ آ جائے یہاں تک اسی یکسوئی کی حالت میں موت تمہیں اپنی آغوش میں لے لے۔ (بخاری ومسلم)
اور مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے بعد ایسے امام یعنی امیر بادشاہ اور قائد رہنما ہوں گے جو عقیدہ وفکر اور علم کے اعتبار سے میری سیدھی راہ پر نہیں چلیں گے اور کردار وعمل کے اعتبار سے میری روش اور میرا طریقہ نہیں اپنائیں گے یا یہ معنی ہیں کہ وہ کتاب وسنت پر عمل نہیں کریں گے اور اس زمانہ میں ایسے بھی پیدا ہوں گے جو روپ اور بدن تو آدمیوں جیسا رکھیں گے لیکن ان کے دل شیطانوں کے سے ہوں گے یعنی وہ لوگ فسق وگمراہی شقاوت سخت دلی، شکوک وشبہات پیدا کرنے، فریب دینے عقل کے نکمے ہونے اور فاسد خواہشات رکھنے میں انسانیت کی ساری حدوں کو پار کر جائیں گے اور اس اعتبار سے ان کی شکل کو صورت آدمیوں جیسی ہونے کے باوجود ان کی سیرت اور ان کی باطنیت شیطان کی سی ہوگی ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اس زمانہ کو پاؤں تو کیا کرو؟ آپ نے فرمایا۔ مسلمانوں کا امیر ومقتدا جو کچھ کہے اس کو سننا اور امیر کی اطاعت کرنا (بشرطیکہ اس اطاعت کا تعلق کسی معصیت سے نہ ہو) اگرچہ تمہاری پشت پر مارا جائے اور تمہارا مال چھین لیا جائے تب بھی سننا اور طاعت کرنا۔

تشریح
لفظ " شر" سے مراد فتنہ، ارکان اسلام میں سستی و کوتاہی واقع ہو جانا، برائی کا غلبہ پا لینا اور بدعت کا پھیلنا ہے اور خیر سے مراد اس کے برعکس معنی ہیں۔
" ہم لوگ جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے " کے ذریعہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعثت نبوی سے قبل کے زمانہ کی طرف اشارہ کیا جب تو حید کا آفتاب جہالت کے بادلوں میں چھپا ہوا تھا، نبوت و رسالت کی روشنی نمودار نہیں ہوتی تھی۔ اور احکام الٰہی پر عمل آوری کا راستہ نظروں سے اوجھل تھا۔ فی جاہلیۃ و شر میں وشر کا لفظ عطف تفسیری ہے کہ اس لفظ کے ذریعہ جاہلیت کی وضاحت بیان کرنا مقصود ہے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس جملہ میں وشر کے بعد تخصیص کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
" دخن" جس کا ترجمہ کدورت کیا گیا ہے ۔ دخان (دھواں ) کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح فضا میں پھیلا ہوا دھواں صاف وشفاف چیزوں کو مکدر اور دھندلا بنا دیتا ہے اسی طرح اس وقت جو بھلائی بھی سامنے آئے گی وہ بدی اور برائی کے گرد و غبار سے آلودہ ہوگی، بایں طور کہ لوگوں کے دلوں میں صفائی اور خلوص نہیں ہوگا جو اس اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھا۔ اور عقیدے صحیح اور اعمال صالح نہیں ہوں گے، امراء و سلاطین کا نظم مملکت اس عدل وانصاف پر مبنی نہیں ہوگا جو پہلے زمانہ میں پایا جاتا تھا مسلمانوں کے قائد و رہنما مخلص (بے غرض اور دین وملت کے سچے خادم نہیں ہوں گے، برائیوں کا ظہور ہوگا، بدعتیں پیدا ہوں گی بدکار لوگ نیکو کاروں کے ساتھ اہل بدعت، اہل سنت کے ساتھ خلط ملط رہیں گے۔
" تم ان میں دیندار بھی دیکھو گے اور بے دین بھی" کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ بھلائی اور برائی دونوں کے ساتھ خلط ملط رکھنے کی وجہ سے متضاد اور مختلف اعمال و کردار اور طور طریقوں کے حامل ہوں گے؟ ان کی زندگی میں منکر یعنی بری باتوں کا چلن بھی ہوگا اور معروف یعنی اچھے کاموں کا عمل دخل بھی ہوگا۔ پس یہ جملہ بھی اسی مفہوم کو واضح کرتا ہے جو ماقبل کے جملوں نعم وفیہ دخن ویستنون بغیر سنتی سے مراد لیا گیا ہے۔
بعض حضرات نے وضاحت کی ہے کہ اس ارشاد گرامی میں اسلام و ہدایت کی روشنی کے بعد پیش آنے والی جس پہلی برائی یا فتنہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے وہ فتنہ وفساد مراد ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سانحہ شہادت کے وقت رونما ہو اور پھر پیش آنے والی دوسری بھلائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ خلافت ہے ، نیز منہم وتنکر یعنی تم ان میں دیندار بھی دیکھو گے اور بے دین بھی۔ میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے وہ امراء وسلاطین مراد ہیں جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد حکمراں ہوئے چنانچہ ان میں سے بعض ایسے حکمران گزرے جو اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اپنے نظام سلطنت میں بھی کتاب وسنت کی ہدایت کو رہنما بناتے تھے اور عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے تھے۔ یا یہ کہ بعض ان میں سے ایسے تھے جو کبھی تو اچھے کام کرتے تھے اور کبھی خواہشات نفسانی میں پڑ کر برے کام کرتے تھے، اس وقت ان کے سامنے آخرت کا مفاد اور دار آخرت کے لئے تیاری کا جذبہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کا اصل مفاد اپنی ذاتی اغراض کو پورا کرنا اور ہر صورت اپنے اقتدار اور اپنی حکمرانی کو باقی رکھنا ہوتا تھا ۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ پہلی برائی سے مراد وہ فتنہ وفساد ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کی صورت میں اور ان کے بعد رونما ہوا، اور دوسری بھلائی سے وہ صلح صفائی ہے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کے درمیان ہوئی اور دخن یعنی کدورت سے مراد وہ افسوسناک واقعات، حادثات ہیں جو حضرت امیر معایہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بعض امراء کے ذریعہ رونما ہوئے جیسے عراق میں زیاد کا فتنہ وفساد۔
" جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلائیں گے" یعنی ان مفاد پرست خود غرض اور گمراہ افراد کا ایک گروہ ہوگا جو لوگوں کو طرح طرح کے فریب اور مختلف لالچ اور بہلادوں کے ذریعہ گمراہی کی طرف بلائیں گے اور ان کو ہدایت و راستی سے دور رکھے گا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گمراہی کی دعوت دینے والوں کی دعوت کو اور جن کو دعوت دی جائے گی ان کی طرف سے اس دعوت کو قبول کئے جانے کو ایک ایسا سبب قرار دیا ہے جس کے ذریعہ دعوت دینے والے، دعوت قبول کرنے والوں کو جہنم میں دھکیل دیں گے اس طرح وہ لوگ ان کی مکر و فریب دعوت کا شکار ہو کر جہنم میں پہلے جائیں گے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا مکر و فریب کی تمام اقسام اور تمام صورتوں کو جہنم کے دروازوں کا قائم مقام قرار دیا ہے۔
بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں جن افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلایئں گے ان سے وہ جاہ پسند اور حکومت واقتدار کے طلبگار مراد ہیں جو ملک وقوم پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے گروہ بنائیں گے اور عام لوگوں کو طرح طرح کے فریب دے کر اپنے گرد جمع کریں گے تاکہ ان کی اجتماعی طاقت کے ذریعہ ملی سیادت اور ملک وحکومت پر قبضہ کر سکیں ، جیسا کہ خوارج اور روافض جیسے گمراہ فرقے اس ناپاک مقصد کے لئے پیدا ہوئے حالانکہ امارت وسیادت اور امانت و ولایت کی کوئی بھی شرط وخصوصیت ان میں موجود نہیں پائی جائے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل وضاحت ہے کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ ودوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے ۔ تو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہونا، مال کار کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے یعنی گمراہی کی طرف ان لوگوں کے بلانے کا مآل کار چونکہ یہ ہوگا کہ جو لوگ ان کے بلانے پر ان کی طرف چلے جائیں گے وہ دوزخ کے عذاب کے مستوجب بنیں گے۔ اس لئے گمراہی کی طرف ان کے بلانے کو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پس یہ ارشاد گرامی اسلوب کے اعتبار سے قرآن کریم اس آیت کی طرح ہے کہ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا )4۔ النساء : 10)
مسلم کی روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں مسلمانوں کا باقاعدہ نظم سلطنت قائم ہے اور مسلمانوں کا امیر و امام موجود ہے تو وہاں کے سیاسی حالات میں تمہارے لئے کتنی ہی تنگی وسختی کیوں نہ ہو اور اس امیر و امام کی طرف سے تمہارے مال اور تمہاری جان کے تئیں ظلم ہی کیوں نہ ہوتا ہو یا تمہیں مارا پیٹا اور تمہارا مال واسباب چھینا کیوں نہ جاتا ہو، تم اس امیر و امام کے خلاف علم بغاوت ہرگز بلند نہ کرنا اور فتنہ وفساد کے دروازے نہ کھولنا بلکہ صبر و تحمل کی راہ اختیار کئے رہنا، اور سخت سے سخت حالات میں بھی امام وقت سے بغاوت کر کے دین وملت کے شیرازہ کو منتشر کرنے کا سبب نہ بننا رہی بات یہ کہ اگر وہ امیر و امام مشروع امور کے ارتکاب کا حکم دے ؟ تو اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ہاں اگر ان مشروع امور کے ارتکاب کے لئے کہا جائے کہ حکم عدولی کی صورت میں بھی اولیٰ کو اختیار کرنے کا جواز باقی رہتا ہے یعنی حکم عدولی کی صورت میں جان جانے کا خوف ہو تو غیر مشروع امر کا ارتکاب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جان کی بازی لگا کر بھی غیر مشروع امر کے ارتکاب سے انکار کرے تو یہ سب سے اچھی بات ہوگی۔ اور اس سب سے اعلی درجہ کو اختیار کرنے کا جواز ہے۔
آخر میں فاسمع واطع کے الفاظ جو دوبارہ ارشاد فرمائے گئے ہیں ان سے اس حکم کو مؤ کد کرنا مقصود ہے کہ اپنے کو امام وقت کی اطاعت سے علیحدہ نہ کیا جائے اور سرکشی وبغاوت کے ذریعہ ملک وملت میں انتشار وتفریق کا فتنہ نہ اٹھایا جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں