مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1357

فتح روم وفارس کی پیش گوئی

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم هلك كسرى فلا يكون كسرى بعده وقيصر ليهلكن ثم لا يكون قيصر بعده ولتقسمن كنوزهما في سبيل الله وسمى الحرب خدعة

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسریٰ ہلاک ہو گیا ، اس کسری کے بعد اور کوئی کسری نہیں ہوگا اور یقینا قیصر یعنی روم کا بادشاہ بھی ہلاک ہوگا جس کے بعد کوئی اور قیصر نہیں ہوگا، نیز ان دونوں بادشاہوں کے خزانے اللہ کی راہ میں تقسیم کئے جائیں گے ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کا نام دھوکہ اور فریب رکھا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" کسریٰ ہلاک ہو گیا " یہ جملہ خبریہ ہے، جس سے یہ مفہوم مراد ہے کہ عنقریب کسریٰ کا ملک تباہ وپامال ہو جائے گا۔
اس بات کو ادا کرنے کے لئے ماضی کا صیغہ اس اعتبار سے استعمال فرمایا گیا ہے کہ اس بات کا وقوع پذیر ہونا ایک یقینی امر تھا یا ماضی کا صیغہ استعمال فرمانا دعا اور نیک فالی کے طور پر تھا۔
" کوئی اور کسریٰ نہیں ہوگا " یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جو کسریٰ تھا اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ بس یہ آخری کسریٰ ہے اس کے بعد کسی اور کو کسریٰ بننا نصیب نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات اس وقت فرمائی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت اسلام پر مشتمل اپنا جو مکتوب گرامی کسریٰ کو ایک قاصد کے ذریعے بھیجا تھا اس کو اس کسریٰ نے از راہ نخوت پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا۔
" وسمی الحرب خدعۃ" (اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کا نام دھوکہ اور فریب رکھا) یہ جملہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ پر عطف ہے یعنی راوی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی نقل کرنے کے بعد یہ کہا کہ وسمی الحرب خدعۃ حاصل یہ کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بشارت بیان فرمائی کہ مسلمانوں کو قیصر وکسریٰ کے ملکوں پر فتح حاصل ہو جائے گی اور وہ ان کے اموال وجائیداد اور خزانوں پر قبضہ وتسلط پا لیں گے تو سب کے ذہن میں یہی بات آئی ہوگی کہ یہ چیزیں جنگ کے بغیر حاصل نہیں ہوں گی اور جنگ ایسی چیز ہے جو زیادہ تر دھوکہ اور فریب کی محتاج ہوتی ہے ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو آگاہ فرمایا کہ جنگ کے موقع پر اس وہم میں نہ پڑ جانا کہ جنگی دھوکہ اور فریب عہد شکنی اور خیانت اور بد دیانتی کی قسم سے ہے، بلکہ اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا کہ دشمنوں کے ساتھ برسر جنگ ہونے کی صورت میں حکمت عملی کے طور پر ایسے فریب اور حیلوں کو اختیار کرنا ضروری ہو جاتا ہے جو جنگ کے جیتنے اور طاقت ومدد حاصل کرنے میں بڑا دخل رکھتے ہیں ۔ مثلا دشمن پر رعب ڈالنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ذہن پر اپنی طاقت کی زیادتی اور اسلحہ جات کی برتری کا سکہ جما دیا جائے اس مقصد کے لئے فرضی کار روائیوں اور جھوٹے سچے بیانات کا سہارا لیا جا سکتا ہے ، یا میدان جنت میں دشمن کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لئے میدان سے ہٹ جانا اور پیچھے لوٹ آنا تاکہ دشمن یہ سمجھے کہ مقابل لڑنے کی تاب نہ رکھنے کی وجہ سے میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے اور جب دشمن اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر غافل ہو جائے تو کسی طرف سے اچانک اس پر ٹوٹ پڑنا یہ اور اس طرح کی دوسری کاروائیاں ایسے حیلے ہیں جن کو جنگی حکمت عملی کے طور پر اختیار کرنے کی اجازت ہے لیکن واضح رہے کہ عہد شکنی کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے جو عہد واقرار ہو جائے اس پر عمل کرنا بہر صورت ضروری ہے کسی معاہدہ کو توڑنا ہرگز درست نہیں۔
لفظ " خدعۃ" اگرچہ خ کے پیش کے ساتھ نقل کیا ہے اور زبر کے ساتھ بھی ، اس طرح دال کے جزم اور پیش کے ساتھ بھی نقل کیا جاتا ہے اور زبر کے ساتھ بھی ، لیکن یہ لفظ خ کے زبر اور دال کے جزم کے ساتھ زیادہ فصیح ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں