مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1361

رومیوں سے جنگ اور دجال کے قتل کی پیشگوئی

راوی:

وعن عبد الله بن مسعود قال إن الساعة لا تقوم حتى لا يقسم ميراث ولا يفرح بغنيمة . ثم قال عدو يجمعون لأهل الشام ويجمع لهم أهل الإسلام ( يعني الروم ) فيتشرط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة فيقتتلون حتى يحجز بينهم الليل فيفيء هؤلاء وهؤلاء كل غير غالب وتفنى الشرطة ثم يتشرط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة فيقتتلون حت يحجز بينهم الليل فيفيء هؤلاء وهؤلاء كل غير غالب وتفنى الشرطة ثم يشترط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة فيقتتلون حتى يمسوا فيفيء هؤلاء وهؤلاء كل غير غالب وتفنى الشرطة فإذا كان يوم الرابع نهد إليهم بقية أهل الإسلام فيجعل الله الدبرة عليهم فيقتلون مقتلة لم ير مثلها حتى إن الطائر ليمر يجنابتهم فلا يخلفهم حتى يخر ميتا فيتعاد بنو الأب كانوا مائة فلا يجدونه بقي منهم إلا الرجل الواحد فبأي غنيمة يفرح أو أي ميراث يقسم ؟ فبينا هم كذلك إذ سمعوا ببأس هو أكبر من ذلك فجاءهم الصريخ أن الدجال قد خلفهم في ذراريهم فيرفضون ما في أيديهم ويقبلون فيبعثون عشر فوارس طليعة . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إني لأعرف أسماءهم وأسماء آبائهم وألوان خيولهم هم خير فوارس أو من خير فوارس على ظهر الأرض يومئذ . رواه مسلم .

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یقینا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ میراث کا تقسیم ہونا موقوف نہ ہو جائے گا۔ یعنی یا تو کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے کثرت سے مارے جانے کی وجہ سے میراث کی تقسیم بند ہو جائے گی کیونکہ اس وقت جو تھوڑے بہت مسلمان بچیں گے ان کو اتنا ہوش کہاں ہوگا کہ وہ اپنے مرنے والے مورثوں کے ترکہ کی تقسیم کی طرف دھیان دیں یا شرعی احکام پر عمل آوری میں کوتاہی کے سبب لوگ میراث تقسیم کرنا بند کر دیں گے اور یا یہ کہ مرنے والے لوگ اپنے ذمہ اتنے قرض اور مطالبات چھوڑ جائیں گے کہ ان کی ادائیگی کرنے کے بعد ترکہ میں سے اتنا بچے گا ہی نہیں کہ اس کی تقسیم کی نوبت آئے اور جب تک مال غنیمت سے خوش ہونا نہ چھوڑیں گے (یعنی قیامت قائم ہونے سے پہلے ایک بات تو یہ ہوگی میراث کی تقسیم نہ ہو پائے گی اور دوسری بات یہ ہوگی کہ مسلمان غنیمت کے مال سے خوش نہیں ہوا کریں گے اور یہ خوش نہ ہونا یا تو اس اعتبار سے ہوگا کہ مال غنیمت ملنا ہی بند ہو جائے گا اور جب مال ملے گا نہیں تو کوئی خوش کہاں سے ہوگا اور یا خوش نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ جو لوگ مال غنیمت کی حفاظت وتقسیم کے ذمہ دار ہوں گے وہ خیانت و بددیانتی کا ارتکاب کرنے لگیں گے جس کی وجہ سے مال غنیمت ایماندار اور بادیانت لوگوں کے لئے کسی خوشی کا باعث نہیں ہوگا ) پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان دونوں باتوں کی حقیقت کو واضح کرنے اور صورت واقعہ ظاہر کرنے کے لئے بیان کیا کہ دشمن یعنی کافر اہل شام سے لڑنے کے لئے فوج اور طاقت جمع کریں گے ۔ ادھر مسلمان بھی ان کافروں سے مقابلہ کے لئے لشکر اور طاقت جمع کریں گے دشمن سے مراد رومی ہیں ، چنانچہ مسلمان اپنے لشکر میں کچھ فوج منتخب کر کے آگے بھیجیں گے تاکہ وہ جنگ کرے اور مر جائے اور اگر واپس آئے تو فتح یاب اور غالب ہو کر آئے۔ پس دونوں طرف کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو جائیں گے اور جنگ شروع ہو جائے گی یہاں تک کہ دونوں لشکروں کے درمیان رات حائل ہو جائے گی اور جنگ کو روک دے گی نیز دونوں فریق اپنے اپنے ٹھکانوں میں واپس آ جائیں گے اور ان میں سے نہ کوئی غالب وفتح یاب ہوگا اور نہ کوئی مغلوب ومفتوح البتہ دونوں طرف کی فوج کے وہ چیدہ اور منتخب دستے جو لڑنے کے لئے آگے گئے ہوں گے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے یعنی دونوں طرف کے لشکروں نے اپنے جن چیدہ فوجیوں کو لڑنے کے لئے آگے بھیجا ہوگا وہ اس دن کی جنگ میں کام آ جائیں گے۔ اور باقی تمام فوجی اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آ جائیں گے، اس طرح اس دن کی جنگ میں دونوں فریق برابر سرابر رہیں گے، نہ کوئی غالب ہوگا نہ کوئی مغلوب پھر دوسرے دن مسلمان ایک دوسرے لشکر کو منتخب کر کے آگے بھیجیں گے تاکہ وہ جنگ کرے اور مر جائے اور واپس آئے تو فتح یاب ہو کر آئے پس دونوں طرف کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو جائیں گے یہاں تک کہ دونوں لشکروں کے درمیان رات حائل ہو جائے گی، اور دونوں طرف کی فوجیں اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آ جائیں گی ان میں سے نہ کوئی غالب ہوگا نہ کوئی مغلوب البتہ دونوں طرف کی فوج کے وہ چیدہ دستے جو لڑنے کے لئے آگے گئے ہوں گے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے پھر تیسرے دن مسلمان ایک اور لشکر کو منتخب کر کے آگے بھیجیں گے تاکہ وہ جنگ کرے اور مر جائے اور اگر واپس آئے تو فتح یاب ہو کر آئے ، پس دونوں طرف کے لشکر کو ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو جائیں گے یہاں تک کہ شام ہو جائے گی اور دنوں اطراف کے فوجی اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آ جائیں گے ان میں سے نہ کوئی غالب ہوگا نہ کوئی مغلوب البتہ دونوں طرف کے چیدہ دستے جو لڑنے کے لئے آگے گئے ہوں گے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ اور پھر جب چوتھا دن ہوگا تو مسلمانوں کی باقی ماندہ فوج کفار سے جنگ کے لئے نکل کھڑی ہوگی اور اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں کفار کو شکست دلوائے گا۔ بہرحال اس دن نہایت سخت اور خوفناک جنگ ہوگی اور مسلمان جان توڑ کر لڑیں گے اور ایسا لڑیں گے کہ اس طرح کی لڑائی کبھی نہیں دیکھی گئی ہوگی، یہاں تک کہ اگر کوئی پرندہ لشکر والوں کے اوپر سے گزر جانا چاہے گا تو ان کو پیچھے نہیں چھوڑ پائے گا یعنی ان سے آگے نہیں گزر سکے گا کہ مر کر زمین پر گر پڑے گا مطلب یہ کہ اس لڑائی میں اس کثرت سے لوگ مارے جائیں گے کہ پورا میدان جنگ لاشوں پٹا پڑا ہوگا اور اگر کوئی پرندہ ان لاشوں کے اوپر سے گزر کر جانا چاہے گا تو آگے نہیں جا پائے گا بلکہ لاشوں کے ناقابل برداشت بدبو کی وجہ سے مر کر گر پڑے گا یا یہ کہ وہ میدان جنگ اتنا وسیع اور طویل ہوگی کہ اگر کوئی پرندہ اس کے ایک سرے سے اڑ کر دوسرے سرے تک جانا چاہے گا تو نہیں جا پائے گا بلکہ اڑتے اڑتے تھک جائے گا اور مر کر گر پڑے گا۔ پھر جب ایک باپ کے بیٹے یعنی کسی ایک خاندان یا کسی ایک سلسلے کے لوگ کہ جن کی تعداد سو ہوگی اپنوں کو شمار کرنا شروع کریں تو ان میں سے صرف ایک مل پائے گا یعنی جنگ ختم ہونے کے بعد باقی ماندہ لشکر کے لوگ جانی نقصان کا جائزہ لینا شروع کریں گے، چنانچہ ہر شخص اپنے اقا رب اور متعلقین کو شمار کرے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ اگر اس کے اقا رب اور متعلقین سو کی تعداد میں جنگ میں شریک ہوئے تھے تو ان سو لوگوں میں سے ایک ہی شخص زندہ بچا ہے باقی سب کام آ گئے ہیں، حاصل یہ کہ اس جنگ میں جانی نقصان اس کثرت سے ہوگا کہ زندہ بچ رہنے والوں کا تناسب سو میں ایک ہوگا پس ایسی صورت میں جب کہ مرنے والوں کی تعداد اس قدر بڑی ہوگی کون سا مال غنیمت خوشی کا باعث ہوگا اور کونسی میراث تقسیم ہوگی؟ بہرحال مسلمان اسی حالت میں ہوں گے کہ اچانک ان کو ایک سخت لڑائی کی خبر معلوم ہوگی، جو پہلی لڑائی سے بھی زیادہ بڑی اور بھیانک ہوگی، پھر مسلمان یہ آواز سنیں گے کہ جیسے کوئی اعلان کرنے والا اعلان کر رہا ہے کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے اہل وعیال کے درمیان دجال پہنچ گیا ہے (یہ خبر سنتے ہی وہ) مسلمان اپنے ہاتھ کی چیزوں یعنی مال غنیمت کی اشیاء کو کہ جو انہیں ملی ہوں گی پھینک پھینک کر دجال کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور پہلے وہ اپنے دس سواروں کو آگے بھیجیں گے تاکہ دشمن کے بارے میں واقفیت بہم پہنچائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسلمان جن سواروں کو آگے بھیجیں گے یقینا میں ان کے اور ان کے باپ کے نام بھی جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ان کے گھوڑے کس رنگ کے ہوں گے نیز وہ بہترین سوار ہوں گے، یا یہ فرمایا کہ وہ اس زمانہ کے روئے زمین کے بہتر سواروں میں سے ہوں گے۔ (مسلم)

تشریح
" شرطہ" فوج کے اس جانباز دستہ کو کہتے ہیں جو لشکر کے بالکل آگے ہو اور اپنی جانیں تک قربان کر دینے کے عزم کے ساتھ میدان جنگ میں سب سے پہلے کودے۔ " یتشرط" کا لفظ اسی سے مشتق ہے جو باب تفعل سے نکالا گیا ہے نیز یہ لفظ باب افتعال سے " یشترط" بھی نقل کیا گیا ہے بہرحال یہ جملہ لاترجع الا غالبۃ اصل میں شرطہ للموت کی صفت کا شفہ مبینہ موضحہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر اپنے جس جانباز دستہ کو آگے بھیجے گا اس کو یہ ہدایت ہوگی کہ وہ کسی بھی حالت میں دشمن کے مقابلے سے بھاگے گا نہیں بلکہ سخت سخت حالت میں بھی محاذ پر ڈٹا رہے ، یہاں تک کہ دشمن کو فنا کے گھاٹ اتار کر سرخ رو لوٹے یا خود فنا کے گھاٹ اتر جائے۔
فیجعل اللہ الدبرۃ علیہم میں لفظ " دبر" ادبار کا اسم ہے بعض روایتوں میں یہ لفظ دابر بھی منقول ہے لیکن معنی کے اعتبار سے دنوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی سے مراد شکست اور ہزیمت ہے۔
" فبای غنیمۃ" حرف ف تفریعہ یا فصیحہ ہے اور طیبی نے لکھا ہے کہ یہ جملہ نحوی ترکیب کے اعتبار سے جزاء ہے شرط محذوف کی کہ پہلے تو مبہم طور پر فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ میراث کا تقسیم ہونا موقوف نہ ہو جائے گا اور مسلمان مال غنیمت سے خوش ہونا چھوڑ دیں گے ۔ اس کے بعد جملہ کی وضاحت آگے کی عبارت عدو یجمعون الخ دشمن یعنی کافر اہل اسلام سے لڑنے کے لئے فوج اور طاقت جمع کریں گے الخ۔ کے ذریعے کی ، اور اس وضاحت کو مذکورہ صفت (یعنی بڑی بھیانک اور خوفناک جنگ ہونے اور اس میں اس قدر جانی نقصان ہونے) کے ساتھ مقید کیا کہ میراث اس لئے تقسیم نہیں ہوگی اور مسلمانوں کو مال غنیمت سے اس لئے خوشی نہیں ہوگی کہ جہاں اتنا زیادہ جانی نقصان ہوا اور اس قدر کثرت سے لوگ مارے گئے ہوں وہاں تقسیم کہاں اور خوشی کہاں؟
" طلیعہ " کریمہ کے وزن پر ہے اور اس کے معنی اس شخص کے ہیں جس کو دشمن کی خبر لانے کے لئے آگے بھیجا جائے ۔ چنانچہ ان دس سواروں سے مراد فوجی جاسوسوں کی وہ ٹکڑی ہے جس کو دشمن کے حالات، ساز و سامان اور قوت وتعداد کی خبر لانے کے لئے دشمن کے ٹھکانوں کی طرف روانہ کیا جائے گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد " میں ان کے اور ان کے باپ کا نام جانتا ہوں الخ" اعجاز نبوت کی دلیل ہے، یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ تھا کہ سینکڑوں سال بعد وقوع پذیر ہونے والے کسی واقعہ سے متعلق افراد کے نام اور ان کے باپ کے نام اور ان کے گھوڑوں کے رنگ تک کا علم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھا، نیز یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کی کلیات وجزئیات کو محیط ہے اور اس نے جس چیز کے بارے میں جس قدر مناسب جانا اس قدر علم اپنے رسول کو بھی عطا فرما دیا۔

یہ حدیث شیئر کریں