مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ جنگ کرنے کا بیان ۔ حدیث 1362

کشت وخون کے بغیر ایک شہر کے فتح ہونے کی پیشگوئی

راوی:

وعن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال هل سمعتم بمدينة جانب منها في البر وجانب منها في البحر ؟ قالوا نعم يا رسول الله قال لا تقوم الساعة حتى يغزوها سبعون ألفا من بني إسحاق فإذا جاؤوها نزلوا فلم يقاتلوا بسلاح ولم يرموا بسهم قال لا إله إلا الله والله أكبر فيسقط أحد جانبيها . قال ثور بن يزيد الراوي لا أعلمه إلا قال الذي في البحر يقولون الثانية لا إله إلا الله والله أكبر فيسقط جانبها الآخر ثم يقولون الثالثة لا إله إلا الله والله أكبر فيفرج لهم فيدخلونها فيغنمون فبينا هم يقتسمون المغانم إذ جاءهم الصريخ فقال إن الدجال قد خرج فيتركون كل شيء ويرجعون . رواه مسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ کیا تم نے کسی ایسے شہر کے بارے میں سنا ہے جس کے ایک طرف تو سمندر ہے اور ایک طرف جنگل ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم نے اس شہر کا ذکر سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد میں سے ستر ہزار آدمی اس شہر کے لوگوں سے جنگ نہ کر لیں گے ۔ چنانچہ حضرت اسحاق کی اولاد میں سے وہ لوگ جب جنگ کے ارادے سے اس شہر میں آئیں گے تو اس شہر کے نواحی علاقے میں پڑاؤ ڈالیں گے اور پورے شہر کا محاصرہ کر لیں گے لیکن وہ لوگ شہر والوں سے ہتھیاروں کے ذریعے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ان کی طرف تیر پھینکیں گے بلکہ لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر کا نعرہ بلند کریں گے اور شہر کے دو طرف کی دیواروں میں سے ایک طرف کی دیوار گر پڑے گی، اس موقع پر حدیث کے راوی ثور بن یزید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہاں سمندر کی جانب والی دیوار کہا تھا۔ (یعنی میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا البتہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہاں یہ روایت کیا تھا کہ اس نعرہ سے سمندر کی طرف والی دیوار گر پڑے گی ۔ بہرحال اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ پھر وہ لوگ دوسری مرتبہ لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر کا نعرہ بلند کریں گے تو ان کے لئے شہر میں داخل ہونے کا راستہ کشادہ ہو جائے گا اور وہ شہر میں داخل ہو جائیں گے پھر وہ مال غنیمت جمع کریں گے یعنی شہر میں جو کچھ ہوگا اس کو اپنے قبضے میں لے لیں گے اور اس مال غنیمت کو آپس میں تقسیم کر رہے ہوں گے کہ اچانک ان کے کانوں میں یہ آواز آئے گی کہ کوئی کہہ رہا ہے، دجال نکل آیا ہے (یہ آواز سنتے ہی وہ لوگ سب کچھ یعنی مال غنیمت وغیرہ کو چھوڑ چھاڑ کر دجال سے لڑنے کے لئے لوٹ پڑیں۔ (مسلم)

تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد میں جس شہر کا ذکر فرمایا اس کے بارے میں ایک شارح کا کہنا یہ ہے کہ وہ شہر روم میں واقع ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر سے قسطنطنیہ مراد ہے جس کا مسلمانوں کے ذریعے فتح ہونا قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ لیکن ایک احتمال یہ ہے کہ وہ شہر قسطنطنیہ کے علاوہ کوئی اور ہوگا کیونکہ قسطنطنیہ کا فتح ہونا جنگ وجدال اور کشت وخون کے ذریعے ہوگا جب کہ مذکورہ شہر کی فتح کا ظاہری سبب صرف تہلیل وتکبیر کے نعرہ کو بتایا گیا ہے۔
" حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد" سے مراد جیسا کہ مظہر نے وضاحت کی ہے ، شام کے لوگ ہیں جن کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحبزادے حضرت اسحق علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے ، اور وہ لوگ مسلمان ہوں گے اس سلسلہ میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ اس شہر کو فتح کرنے والے لوگوں میں حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد کے علاوہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے لوگ بھی ہوں گے جو حجاز عرب کے باشندے ہوں گے، یا ان کے علاوہ دوسرے مسلمان بھی شامل ہوں ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد کا ذکر اختصار کے پیش نظر اور دوسرے لوگوں پر ان کو فوقیت دینے کی بنا پر ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس شہر کو فتح کرنے والے لوگ صرف حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں گے۔
" ہتھیاروں کے ذریعے جنگ نہیں کریں گے " کے بعد پھر یہ ارشاد کہ " اور نہ ان کی طرف تیر پھینکیں گے" تعمیم کے بعد تخصیص کے طور پر ہے جس کا مقصد ہے ہتھیاروں کے مطلق استعمال نہ ہونے کو تاکید کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں