مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ پینے کی چیزوں کا بیان ۔ حدیث 231

رات آنے پر کن چیزوں کا خیال رکھا جائے

راوی:

عن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا كان جنح الليل أو أمسيتم فكفوا صبيانكم فإن الشيطان ينتشر حينئذ فإذا ذهب ساعة من الليل فخلوهم وأغلقوا الأبواب واذكروا اسم الله فإن الشيطان لا يفتح بابا مغلقا وأوكوا قربكم واذكروا اسم الله وخمروا آنيتكم واذكروا اسم الله ولو أن تعرضوا عليه شيئا وأطفئوا مصابيحكم "
وفي رواية للبخاري : قال : " خمروا الآنية وأوكوا الأسقية وأجيفوا الأبواب واكفتوا صبيانكم عند المساء فإن للجن انتشارا أو خطفة وأطفئوا المصابيح عند الرقاد فإن الفويسقة ربما اجترت الفتيلة فأحرقت أهل البيت "
وفي رواية لمسلم قال : " غطوا الإناء وأوكوا السقاء وأغلقوا الأبواب وأطفئوا السراج فإن الشيطان لا يحل سقاء ولا يفتح بابا ولا يكشف إناء فإن لم يجد أحدكم إلا أن يعرض على إنائه عودا ويذكر اسم الله فليفعل فإن الفويسقة تضرم على أهل البيت بيتهم "
وفي رواية له : قال : " لا ترسلوا فواشيكم وصبيانكم إذا غابت الشمس حتى تذهب فحمة العشاء فإن الشيطان يبعث إذا غابت الشمس حتى تذهب فحمة العشاء "
وفي رواية له : قال : " غطوا الإناء وأوكوا السقاء فإن في السنة ليلة ينزل فيها وباء لا يمر بإناء ليس عليه غطاء أو سقاء ليس عليه وكاء إلا نزل فيه من ذلك الوباء "

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جب رات کی تاریکی پھیل جائے یا یہ فرمایا کہ جب شام ہو جائے تو تم اپنے بچوں کو (گھر سے نکلنے اور گلی کوچوں میں پھرنے سے ) روک دو کیونکہ اس وقت شیطان یعنی جنات چاروں طرف پھیل جاتے ہیں، پھر جب رات کی ایک گھڑی گزر جائے تو بچوں کو ( کہیں آنے جانے کے لئے ) چھوڑ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، نیز اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ پڑھ کر ) دروازوں کو بند کر دو، کیونکہ (بسم اللہ پڑھ کر ) بند (کئے گئے ) دروازوں کو شیطان نہیں کھولتا (باوجودیکہ شیاطین اور جنات کو اس پر قدرت حاصل ہے کہ وہ دروازوں اور دیواروں میں بیٹھ جائیں، لیکن اللہ کے ذکر کے سبب وہ بیٹھنے کی مجال نہیں رکھتے ) اور اللہ کا نام لے کر (ان ) مشکیزوں کے منہ باندھ دو (جن میں پانی موجود ہو تاکہ ان میں کیڑا و پتنگا وغیرہ نہ گھس جائے ) اور اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانک دو اور خواہ برتن پر عرضا ہی کوئی چیز رکھ دو (یعنی اگر برتن پر ڈھکنے کے لئے کوئی ایسی چیز موجود نہ ہو جس سے اس برتن کا پورا منہ چھپ سکے تو اس پر عرضا کوئی لکڑی وغیرہ رکھ دو اگرچہ اس صورت میں برتن پوری طرح نہیں ڈھکے گا لیکن اس طرح کم سے کم کراہت تو ختم ہو ہی جائے گی اور اس حکم کی برکت سے برتن میں موجود کھانے پینے کی چیز اس ضرر و نقصان سے بچ جائے گی جو برتن کے بالکل کھلے ہوئے ہونے کی صورت میں یقینی ہوتا جیسے شیطان کا تصرف ) اور (سوتے وقت ) اپنے چراغوں کو بجھا دو ۔" (بخاری ومسلم ) اور مذکورہ بالا روایت تو یکساں الفاظ میں بخاری و مسلم میں منقول ہے ہی لیکن یہ مضمون مختلف الفاظ کے ساتھ بخاری و مسلم نے الگ الگ بھی نقل کیا ہے چنانچہ ) بخاری کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" برتنوں کو ڈھانک دیا کرو، مشکیزوں کے منہ باندھ دیا کرو، دروازوں کو بند کر دیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائے رکھو (ان کو ادھر ادھر نہ جانے دو ) جب کہ شام ہو جائے کیونکہ (اس وقت ) جنات چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور اچک لیتے ہیں ، اور سوتے سوتے چراغوں کو بجھا دیا کرو کیونکہ (اکثر یا بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ) چوہا بتی کو کھینچ لے جاتا ہے اور گھر والوں کو جلا دیتا ہے ۔"
اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" برتنوں کو ڈھانک دیا کرو " مشکیزوں کے منہ باندھ دیا کرو دروازوں کو بند کر دیا کرو، اور چراغوں کو بجھا دیا کرو ، کیونکہ ( اللہ کا نام لینے کی وجہ سے ) شیطان (بندھے ہوئے، مشکیزوں کو نہیں، کھولتا، اور نہ (بند ) دروازوں کو کھولتا ہے اور نہ ڈھانکے ہوئے ) برتنوں کو کھولتا ہے ۔ اگر تم میں سے کسی کو (ڈھانکنے کے لئے کوئی چیز ) نہ ملے الاّ یہ کہ وہ اللہ کا نام لے کر برتن کے منہ پر عرضا لکڑی ہی رکھ سکتا ہو تو وہ ایسا ہی کر لے (یعنی بسم اللہ پڑھ کر برتن کے منہ پر کوئی لکڑی ہی رکھ دے ) اور (سوتے وقت چراغ کو اس لئے بجھا دیا کرو ) کہ (چوہا چراغ کی بتی کو کھینچ کر ) گھر والوں پر ان کے گھر کو بھڑکا دیتا ہے ۔ (یعنی چوہا جلی ہوئی بتی کو لے جا کر کسی ایسی جگہ ڈال دیتا ہے، جہاں کسی چیز میں آگ لگ جاتی ہے اور پھر سارا گھر جل جاتا ہے ۔
اور مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" برتن کو ڈھانک دیا کرو اور مشکیزہ کا منہ بند نہیں ہوتا اس وبا کا کچھ حصہ اس میں بھی داخل ہو جاتا ہے ۔"

تشریح
متفق علیہ روایت کے بعد بخاری کی جو روایت نقل کی گئی ہے اور اس میں عند المساء (جب کہ شام ہو جائے ) کا جو لفظ مذکور ہوا ہے ۔ اس کے بارے میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا تعلق ساری مذکورہ چیزوں سے ہو (یعنی رات شروع ہو جائے تو برتنوں کو ڈھانک دیا جائے، مشکیزوں کے منہ بھی باندھ دیئے جائیں، دروازے بھی بند کر دیئے جائیں اور بچوں کو باہر نکلنے سے روک دیا جائے، اس صورت میں " شام " سے مراد وہ وقت ہو گا جو ابتداء شام سے عشاء تک رہتا ہے کہ دروازوں کو بند رکھنے اور برتنوں کو ڈھانکنے کا یہی وقت ہے اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ عند المساء کا تعلق صرف و اکفتوا صبیانکم (اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائے رکھو) سے ہے جیسا کہ حدیث کا سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے تو مراد انسب ہو گی اس صورت میں یہ مطلب ہو گا کہ رات میں ان سب چیزوں کا اس طرح خیال رکھو کہ رات کے ابتدائی حصے میں یعنی سورج ڈوبنے کے فوراً بعد بچوں کو باہر نکلنے اور ادھر ادھر ہونے سے روک دو ، کیونکہ یہ وقت جنات کے پھیلنے کا ہے اور جب رات کی ایک گھڑی (یعنی ایک گھنٹہ ) گزر جائے تو یہ سب کام کرو، یعنی برتن کو ڈھانک دو اور دروازے بند کر دو نیز اس وقت بچوں کو باہر جانے دینے میں کوئی حرج نہیں اس توجیہ سے اس روایت کی متفق علیہ روایت کے ساتھ بھی مطابقت ہو جائے گی ۔
" اور اچک لیتے ہیں" شیاطین کا بچوں کو اچک لینا ایک حقیقت ہے جس کی تصدیق بعض واقعات سے بھی ہوئی ہے اگرچہ یہ قلیل الوقوع ہے، یا پھر اچک لینے سے مراد بچوں کے ہوش و حو اس کو زائل کر دینا یا ان کو کھیل کود میں لگا دینا ہے ۔
" جنات و شیاطین" اصل میں یہ دونوں ایک ہی ہیں " جنات میں سے جو سرکش و فاسق ہیں ان کو شیطان کہتے ہیں ! فحمہ شروع رات میں یعنی مغرب و عشاء کے درمیان جو تاریکی چھا جاتی ہے اس کو فحمہ کہتے ہیں اور عشاء کی نماز سے صبح ہونے تک جو تاریکی رہتی ہے اس کو عسعسہ کہتے ہیں، چنانچہ قرآن کریم کی آیت (وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ) 81۔ التکویر : 17) سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے
واضح رہے کہ اس حدیث میں جو احکام دئیے گئے ہیں وہ بطریق وجوب نہیں ہیں، بلکہ ان کا مقصد محض ان امور کی ہدایت کرنا ہے جو ہماری روز مرہ زندگی میں بھلائی و مصلحت اندیشی کے متقاضی ہوتے ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان احکام کا تعلق استحباب سے ہے یعنی حدیث میں مذکورہ ہدایت پر عمل کرنا مستحب ہے ۔
نووی کہتے ہیں کہ (اگر بنظر عمیق اس حدیث کے مضمون پر غور کیا جائے اور ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو واضح ہو گا کہ ) اس ارشاد میں مختلف قسم کی بھلائیاں اور کتنے ہی جامع آداب اور تہذیب کے رموز پنہاں ہیں خاص طور سے ان میں سے جو سب سے بہتر تعلیم ہے وہ یہ ہے کہ ہر حرکت و سکون کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا یعنی بسم اللہ پڑھنا ایک ایسا سہل ذریعہ ہے جو دنیا و آخرت کی آفات و بلاؤں سے سلامتی و حفاظت کا ضامن قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں