مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ طب کا بیان ۔ حدیث 442

طب اور جھاڑ پھونک کا بیان

راوی:

" طب " عام طور پر طاء کے زیر کے ساتھ مستعمل ہے، لیکن سیوطی کہتے ہیں کہ یہ لفظ طاء کے زبر، زیر اور پیش تینوں کے ساتھ منقول ہے، اس کے معنی ہیں " علاج کرنا، دوا کرنا ۔" بعض مواقع پر اس لفظ کو طاء کے زیر کے ساتھ " سحر" کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہم اسی اعتبار سے " مطبوب " اس شخص کو کہتے ہیں جس پر سحر (جادو ) کیا گیا ہو ۔
طب کا تعلق جسم (ظاہر ) سے بھی ہوتا ہے اور نفس (باطن ) سے بھی، چنانچہ حفظان صحت اور دفع مرض کے ذریعہ بدن کے علاج معالجہ کو جسمانی طب کہتے ہیں، اور باطنی ہلاکت و تباہی تک پہنچانے والے افکار و اعمال اور بری عادات و اطوار کے ترک و ازالہ کے ذریعہ نفس کا علاج کرنے کو طب نفسانی کہتے ہیں، جس طرح طب کی دو قسمیں ہیں، اسی طرح دوا کی بھی دو قسمیں ہیں ایک تو جسمانی اور طبعی، خواہ وہ مفردات کی شکل میں ہو یا مرکبات کی شکل میں (جیسا کہ ظاہری دوائیں ہوتی ہیں ) اور دوسری قسم روحانی و لسانی ہے، جو قرآن کریم اور قرآن کریم کے حکم میں شامل دوسری چیزوں کی صورت میں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لوگوں کے علاج و اصلاح کے لئے ظاہری و طبعی دواؤں کو بھی اختیار فرماتے تھے اور باطنی و روحانی معالجہ کو بھی ۔
" رقی " اصل میں " رقیہ " کی جمع ہے جس کے معنی افسون کے ہیں ہماری زبان میں اس کو منتر اور روز مرہ کی بول چال میں جھاڑ پھونک بھی کہا جاتا ہے، علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآنی آیات ، منقول دعاؤں اور اسماء الہٰی کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے ان کے علاوہ ایسے منتروں کے ذریعہ بھی جائز ہے جن کے الفاظ و کلمات کے معنی معلوم ہوں، اور وہ دین و شریعت کے مخالف نہ ہوں جن منتروں کے الفاظ و کلمات ایسے ہوں کہ ان کے معنی معلوم نہ ہوں یا ان کے الفاظ و کلمات دین و شریعت کی تعلیمات و احکام کے برخلاف ہوں ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا قطعا، جائز نہیں ہے اسی طرح وہ اہل عزائم و تکثیر جو علم نجوم و رمل کی مدد لے کر عملیات کرتے ہیں اور حفظ ساعات و تعین اوقات جیسی چیزوں کو اختیار کرتے ہیں ان کا یہ طریقہ بھی اہل دیانت و تقویٰ کے نزدیک مکروہ و حرام ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں