مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ طب کا بیان ۔ حدیث 445

تین چیزوں میں شفا ہے

راوی:

وعن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الشفاء في ثلاث في شرطة محجم أو شربة عسل أو كية بنار وأنا أنهى أمتي عن الكي . رواه البخاري .

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شفا تین چیزوں میں ہے بچھنے والی سینگی لگانے میں، یا شہد پینے میں خواہ خالص شہد پیا جائے یا پانی وغیرہ میں ملا کر پیا جائے اور آگ سے داغنے میں ۔ لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں ۔" (بخاری )

تشریح
محجم ' میم کے زیر اور جیم کے زبر کے ساتھ سینگی کو کہتے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے مراد نشتر یا استرا ہے جس سے پچھنے دیئے جاتے ہیں۔ شرطۃ شین کے زبر کے ساتھ، پھچنے لگاؤ کے لئے کو پچھنے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ رگ سے خون نکالا جاتا ہے لہذا فی شرطۃ معجم کا ترجمہ یہ ہوگا کہ نشتر یا استرے کے ذریعہ پچھنے لگانے میں (شفا ہے )
سفر السعادۃ کے مصنف کے مطابق علماء کہتے ہیں کہ اس حدیث میں تمام مادی ( جسمانی ) امراض کے علاج معالجہ کی طرف راہنمائی و اشارہ ہے کیونکہ مادی امراض یا تو دموی ہوتے ہیں یا صفراوی یا بلغمی ہوتے ہیں یا سوداوی چنانچہ اگر کوئی مرض دموی یعنی فساد خون کی بنا پر ہوتا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کو جسم سے باہر نکال دیا جائے جس کی صورت پچھنے لگوانا ہے اور باقی تینوں صورتوں میں مرض کا بہترین علاج اسہال ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کے ذریعہ اس طرف متوجہ کیا کہ اسہال کے لئے شہد ایک بہترین اور معتدل دوا کا کام دیتا ہے نیز آگ سے داغنے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ اگر مرض کی نوعیت ایسی ہو کہ طبیب و معالج اس کے علاج سے عجز ہو جائیں تو پھر آگ سے داغا جائے کیونکہ یہ جب کوئی مغلظ باغی ہو جاتی ہے اور اس کا مادہ منقطع نہیں ہوتا تو اس کے انقطاع کا واحد ذریعہ اس کو داغ دینا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اخر الدوالکی یعنی آخری دوا داغنا ہے۔
رہی یہ بات کہ داغنا جب ایک علاج ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت کیوں فرمائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب داغنے کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ مادہ مرض کا باعث ہے اس کے دفیعہ کے لئے داغنا یقینی ہے ۔ چنانچہ ان کے یہاں یہ مشہور تھا کہ اخر الدوالکی ۔ظاہر ہے کہ یہ بات اسلامی عقیدے کے سراسر خلاف ہے کیونکہ کوئی بھی علاج خواہ وہ کتنا ہی مجرب کیوں نہ ہو یقین کا درجہ نہیں رکھ سکتا، صرف ظاہری سبب اور ذریعہ ہی سمجھا جا سکتا ہے یقینی شفا تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فاسد عقیدے کی تردید اور لوگوں کو شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے اس کی ممانعت فرمائی اور یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے ورنہ اگر کوئی شخص داغنے کو مرض کے دفعیہ کا ایک ظاہری سبب و ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کو بطور علاج اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید رکھے جائز ہے ، بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ داغنے کی ممانعت کا تعلق خطرہ اور تردد کی صورت سے ہے یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ داغنے سے فائد ہے کے جزم کی بجائے نقصان اور ہلاکت جان کا خوف اور خطرہ ہو تو پھر داغنا نہ چاہئے ۔ اس مسئلہ میں بعض شارحین حدیث نے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ داغنے کے سلسلہ میں مختلف احادیث منقول ہیں بعض احادیث تو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور بعض نہی کو ثابت کرتی ہیں جیسے مذکورہ بالا احادیث اور دوسری احادیث اسی طرح بعض احادیث میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں داغنے کو پسند نہیں کرتا اور بعض احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف کی گئی ہے اس طرح ان احادیث کے باہمی تعارض و تضاد کو دور کرنے اور ان میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے یہ لکھا ہے کہ جن احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داغا تو یہ اصولی طور پر داغنے کے جواز پر دلالت کرتا ہے اور جن احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے وہ اس جواز کے منافی نہیں ہے کیونکہ عدم پسندیدگی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا چنانچہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پسند نہیں فرماتے تھے لیکن دوسروں کے لئے اس کی ممانعت بھی نہیں فرماتے تھے ، اسی طرح جن احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف منقول ہے وہ بھی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتیں کیونکہ مدح و تعریف کا مقصد صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ داغنے کو اختیار نہ کرنا محض اولی اور افضل ہے نہ کہ ضروری ہے البتہ جن احادیث میں داغنے کی ممانعت صراحت کے ساتھ منقول ہے تو وہ ممانعت دراصل اس صورت پر محمول ہے جب کہ داغنے کو اختیار کرنا یا تو سبب مرض کے بغیر ہو یا مرض کے دفعیہ کے لئے اس کی واقعی حاجت نہ ہو بلکہ وہ مرض دوسرے علاج معالجہ سے دفع ہو سکتا ہے، نیز جیسا کہ او پر بیان کیا گیا ہے یہ ممانعت اس بات پر بھی محمول ہے کہ یہ ممانعت داغنے دراصل داغنے کے بارے میں مذکورہ بالا فاسد عقیدے اور شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے ہے اور اگر اس طرح کا فاسد عقیدہ نہ رکھا جائے تو یہ ممانعت نہیں ہو گی بعض حضرات کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض صحابہ کے بارے میں داغنے کا حکم دینا (جیسا کہ آگے آ رہا ہے ) اس بنا پر تھا کہ ان صحابہ کے زخم بہت خراب ہو گئے تھے اور بعض عضو کے کٹ جانے کی وجہ سے اخراج خون میں کمی نہیں ہو رہی تھی، نیز آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ داغنے کے صحت یقینی ہے حاصل یہ کہ کسی عضو کو داغنا یا جلانا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آ جائے اور طبیب خاذق یہ کہے کہ اس مرض کا آخری علاج داغنا ہی ہے تو پھر داغنا جائز ہوگا ۔

یہ حدیث شیئر کریں