مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خواب کا بیان ۔ حدیث 554

اپنا برا خواب کسی مرد دانا یا دوست کے علاوہ اور کسی کے سامنے بیان نہ کرو

راوی:

عن أبي رزين العقيلي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة وهي على رجل طائر ما لم يحدث بها فإذا حدث بها وقعت . وأحسبه قال لا تحدث إلا حبيبا أو لبيبا . رواه الترمذي وفي رواية أبي داود قال الرؤيا على رجل طائر ما لم تعبر فإذا عبرت وقعت . وأحسبه قال ولا تقصها إلا على واد أو ذي رأي .

" حضرت ابورزین عقیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مؤمن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے اور خواب کو جب تک بیان نہ کیا جائے وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتا ہے اور جب اس کو کسی کے سامنے بیان کر دیا جاتا ہے تو وہ واقع ہو جاتا ہے راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا دانا اور دوست کے علاوہ کسی اور کے سامنے خواب کو بیان نہ کرو ۔ ( ترمذی )
اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خواب کی تعبیر جب تک بیان نہیں کی جاتی وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتا ہے اور جب تک اس کی تعبیر بیان کر دی جاتی ہے تو وہ تعبیر واقع ہو جاتی ہے اور میرا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا اور دوست و عقلمند کے علاوہ کسی اور کے سامنے خواب کو بیان نہ کرو ۔"

تشریح
علی رجل طائر ( وہ پرندہ کے پاؤں پر ہے ) دراصل عربی کا ایک محاورہ ہے جو اہل عرب کسی ایسے معاملہ اور کسی ایسی چیز کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جن کو قرار و ثبات نہ ہو ، مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح پرندہ عام طور پر کسی ایک جگہ ٹھہرا نہیں رہتا ، بلکہ اڑتا اور حرکت کرتا رہتا ہے اور جو چیز اس کے پیروں پر ہوتی ہے وہ بھی کسی ایک جگہ قرار نہیں پاتی بلکہ ادنی سی حرکت سے گر پڑتی ہے اسی طرح یہ معاملہ اور یہ چیز بہی کسی ایک جگہ پر قائم و ثابت نہیں رہتی لہذا فرمایا گیا کہ خواب کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ جب تک اس کو کسی کے سامنے بیان نہیں کیا جاتا اور اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا جاتا ہے اس وقت تک وہ کوئی اعتبار نہیں رکھتا اور واقع نہیں ہوتا ، لیکن جب اس کو کسی کے سامنے بیان کر دیا جاتا ہے اور جوں ہی اس کی تعبیر دی جاتی ہے وہ اسی تعبیر کے مطابق واقع ہو جاتا ہے ، لہذا کسی کے سامنے اپنا خواب بیان نہ کرنا چاہئے لیکن واضح رہے کہ یہ حکم برے خواب کے بارے میں ہے کہ جس کے واقع ہونے سے انسان ڈرتا ہے اور نقصان و ضرر کا واہمہ رکھتا ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے ۔
مرد دانا اور دوست کے سامنے خواب بیان کرنے کو اس لئے فرمایا گیا ہے کہ علقمند و دانا اپنی عقل و حکمت کی بنا پر خواب کی اچھی ہی تعبیر دے گا اسی طرح جو شخص دوست و ہمدرد ہوگا وہ بھی خواب کو بھلائی پر ہی محمول کرے گا اور اچھی تعبیر دے گا جب کہ بیوقوف تو اپنی نادانی کی بنا پر اور دشمن اپنے بغض و عناد کے تحت خراب تعبیر دے گا ۔
اس موقع پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب تمام ہی چیزوں کا وقوع پذیر ہونا قضا و قدر سے متعلق ہے تو خواب کا شرمندہ تعبیر نہ ہونا اس خواب کو ظاہر نہ کرنے پر کس طرح موقوف ہو سکتا ہے اور خواب کے وقوع پذیر ہونے میں تعبیر کا مؤثر ہونا کیونکر ہے ؟ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ یہ چیز بھی قضاء و قدر کے مطابق ہے جیسا کہ دعا اور صد قہ و خیرات اور دوسرے اسباب و ذرائع کا مسئلہ ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں