مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خواب کا بیان ۔ حدیث 555

ورقہ ابن نوفل کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب

راوی:

وعن عائشة رضي الله عنها قالت سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ورقة . فقالت له خديجة إنه كان قد صدقك ولكن مات قبل أن تظهر . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أريته في المنام وعليه ثياب بيض ولو كان من أهل النار لكان عليه لباس غير ذلك . رواه أحمد والترمذي .

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں پوچھا گیا ( کہ وہ مؤمن تھے یا نہیں ؟ ) اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا کہ وہ ورقہ بن نوفل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مر گئے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو خواب میں ورقہ بن نوفل کو اس حالت میں دکھلایا گیا ہے کہ اس پر سفید کپڑے تھے اور وہ دوزخی ہوتے تو ان کے جسم پر اور طرح کے کپڑے ہوتے ۔" (الترمذی )

تشریح
ورقہ ابن نوفل ابن اسد ابن عبد العزی ۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے انہوں نے زمانہ جاہلیت میں عیسائی مذہب کی تعلیم حاصل کر کے اس میں کافی ورک پیدا کیا تھا اور انجیل کو عربی زبان میں منتقل کیا تھا ان کے بارے میں ثابت ہے کہ بت پرستی سے سخت بیزار تھے اور اپنے طریقے پر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے، کافی معمر تھے اور عمر کے آخری حصے میں بنیائی سے بالکل محروم ہو گئے تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا ۔ اور پہلے پہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ان کے پاس گئیں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کا تذکرہ آسمانی کتب میں کیا گیا ہے یہ واقعہ بہت مشہور ہے اور سیرت و تاریخ کی ہر کتاب میں موجود ہے ۔
مشہور کتاب اسد الغابہ کے مصنف نے ورقہ ابن نوفل کا تذکرہ صحابہ کے زمرے میں کیا ہے اور ان کے اسلام کے بارے میں علماء کے جو اختلافی اقوال ہیں ان کو ذکر کرتے ہوئے مذکورہ بالا حدیث کو بعینہ نقل کیا ہے! حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہیں تھیں اس لئے انہوں نے اس روایت کو صحابہ سے بطریق سماع نقل کیا ہوگا ۔
" اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا الخ " یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب دینے سے پہلے اپنے چچا زاد بھائی کی حالت کو بیان کیا لیکن اسلوب کلام ایسا اختیار کیا کہ ورقہ ابن نوفل کی حقیقت بھی واضح ہو جائے اور مرتبہ نبوت کا ادب بھی ملحوظ رہے چنانچہ انہوں نے کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے تھے یعنی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس فرشتہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ہے وہ اللہ کی طرف سے انبیاء کے پاس وحی لانے والا ہی فرشتہ ہے جو آپ پہلے حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام پر بھی نازل ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور و غلبہ کے وقت زندہ رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کروں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طاقت پہنچاؤں گا ۔ گویا ایک طرف تو اس بات سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے ایمان کو ثابت کرنا چاہا اور دوسری طرف انہوں نے یہ بھی کہا کہ لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مر گئے تھے اس سے انہوں نے ان کے ایمان کے بارے میں شک کو بھی ظاہر کر دیا اور پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا کہ وہ مؤمن تھے لہٰذا یہ حدیث ورقہ ابن نوفل کے ایمان پر دلالت کرتی ہے اور ظاہر بھی ہے کہ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تو پھر ان کے ایمان کے سلسلہ میں اختلاف کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے ۔ہاں اگر ان کا تصدیق کرنا نبوت سے پہلے ہوتا تو بے شک اختلاف کی گنجائش تھی ۔

یہ حدیث شیئر کریں