مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خواب کا بیان ۔ حدیث 557

عالم بزرخ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کے کچھ اور حصے

راوی:

عن سمرة بن جندب قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مما يكثر أن يقول لأصحابه هل رأى أحد منكم من رؤيا ؟ فيقص عليه من شاء الله أن يقص وإنه قال لنا ذات غداة إنه أتاني الليلة آتيان وإنهما ابتعثاني وإنهما قالا لي انطلق وإني انطلقت معهما . وذكر مثل الحديث المذكور في الفصل الأول بطوله وفيه زيادة ليست في الحديث المذكور وهي قوله فأتينا على روضة معتمة فيها من كل نور الربيع وإذا بين ظهري الروضة رجل طويل لا أكاد أرى رأسه طولا في السماء وإذا حول الرجل من أكثر ولدان رأيتهم قط قلت لهما ما هذا ما هؤلاء ؟ قال قالا لي انطلق فانطلقنا فانتهينا إلى روضة عظيمة لم أر روضة قط أعظم منها ولا أحسن . قال قالا لي ارق فيها . قال فارتقينا فيها فانتهينا إلى مدينة مبنية بلبن ذهب ولبن فضة فأتينا باب المدينة فاستفتحنا ففتح لنا فدخلناها فتلقانا فيها رجال شطر من خلقهم كأحسن ما أنت راء وشطر منهم كأقبح ما أنت راء . قال قالا لهم اذهبوا فقعوا في ذلك النهر قال وإذا نهر معترض يجري كأن ماءه المحض في البياض فذهبوا فوقعوا فيه ثم رجعوا إلينا قد ذهب ذلك السوء عنهم فصاروا في أحسن صورة وذكر في تفسير هذه الزيادة وأما الرجل الطويل الذي في الروضة فإنه إبراهيم وأما الولدان الذين حوله فكل مولود مات على الفطرة قال فقال بعض المسلمين يا رسول الله وأولاد المشركين ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وأولاد المشركين وأما القوم الذين كانوا شطر منهم حسن وشطر منهم حسن وشطر منهم قبيح فإنهم قوم قد خلطوا عملا صالحا وآخر سيئا تجاوز الله عنهم . رواه البخاري .

" حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے اکثر یہ پوچھا کرتے تھے کہ کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ جس کو خواب دکھانا چاہتا اور وہ خواب دیکھتا تو وہ اپنا خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کر دیتا ، ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے بیان کیا کہ آج رات (میں نے خواب دیکھا کہ ) دو شخص میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ کو اٹھا کر کہا ہمارے ساتھ چلئے چنانچہ میں ان کے ساتھ چل پڑا ۔ اس کے بعد حدیث کے راوی سمرہ نے وہی طویل حدیث بیان کی جو ( اس خواب سے متعلق ) پہلی فصل میں گزر چکی ہے لیکن اس حدیث میں پہلی فصل والی حدیث سے کچھ زیادہ باتیں ہیں اور وہ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس ہم ایک باغ میں پہنچے جہاں (درختوں کی کثرت اور ان میں سرسبزی وشادابی کی بہتات کی وجہ سے ) اندھیرا پھیلا ہوا تھا باغ میں ہر طرف بہار ہی بہار تھی اور ہمہ اقسام کے شگوفے کھلے ہوئے تھے ، پھر اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ باغ کے بیچوں بیچ ایک شخص کھڑے ہوئے ہیں وہ بہت لمبے تھے کہ ان کا بھی مجھے نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ ان کی لمبائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی پھر مجھے یہ بھی نظر آیا کہ ان کے گرد بہت سے لڑکے تھے جن کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا میں نے ان دونوں سے پوچھا کہ یہ لمبا شخص کون ہے اور یہ لڑکے کون ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے مجھ سے کہا کہ چلے چلئے چنانچہ ہم آگے چلے اور ایک بہت بڑے باغ کے پاس پہنچے جس سے بڑا اور جس سے اچھا کوئی اور باغ میں نے نہیں دیکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں پہنچ کر ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ باغ کے اندر چلئے یا اس کے درختوں پر چڑھئے چنانچہ ہم چڑھے اور ایک ایسے شہر کے قریب پہنچے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے پھر ہم اس شہر کے دروازے پر آئے اور اس کو کھلوایا اور جب وہ دروازہ ہمارے لئے کھول دیا گیا تو ہم اندر داخل ہوئے اور اس شہر میں ہم ایسے کتنے ہی لوگوں سے ملے جن میں سے ہر ایک کے بدن کا آدھا حصہ اس سے بھی بہتر تھا جس کو تم دیکھتے ہو اور آدھا حصہ اس سے بھی بدتر تھا اور آدھا حصہ انتہائی حسین و تندرست تھا اور آدھا حصہ انتہائی بھدا و خراب تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں نے (جو مجھ کو اپنے ساتھ لے گئے تھے ) ان سب نے کہا کہ جاؤ اس نہر میں غوطہ لگاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں (کہ جب ان دونوں نے یہ بات کہی تو ) میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں عرضا ایک نہر بہ رہی ہے جس کا پانی خالص دودھ کی طرح سفید ہے ، چنانچہ وہ لوگ نہر کے پاس گئے اور اس میں کود گئے ، پھر جب وہ (غوطہ لگا کر ) ہمارے پاس واپس آئے تو ان کے جسم کی خرابی و برائی دور ہو چکی تھی ۔
اور ان کا پورا جسم بہترین شکل و صورت میں تبدیل ہو گیا تھا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے ان زیادہ الفاظ کی وضاحت میں فرمایا کہ وہ لمبے شخص جو باغ میں تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے گرد جو لڑکے تھے ۔ وہ ایسے بچے تھے جو فطرت پر مر جاتے ہیں یعنی جو بچے چھوٹی عمر میں نابالغ مر جاتے ہیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس رہتے ہیں راوی یہ کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اور مشرکوں کے لڑکے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکوں کے نابالغ لڑکے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے پاس رہتے ہیں اور وہ لوگ جن کا آدھا جسم اچھا اور آدھا جسم برا تھا وہ ایسے لوگ تھے جن کے اعمال ملے جلے تھے کہ انہوں نے کچھ اچھے عمل کئے اور کچھ برے عمل ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا ۔" (بخاری )

یہ حدیث شیئر کریں