مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 561

سلام کا بیان

راوی:

سلام کے معنی ہیں نقائص و عیوب سے برأت و نجات پانا۔سلام اللہ تعالیٰ کا ایک اسم پاک ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو ہر عیب و آفت اور تغیر و فنا سے پاک اور محفوظ ہے۔
سلام اسلامی تہذیب و معاشرت کا ایک خاص رکن ہے اس کے لئے جو الفاظ مقرر کئے گئے وہ السلام علیک ہے اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تیرے حال سے واقف ہے لہذا غفلت اختیار نہ کر، یایہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسم پاک کا تجھ پر سایہ ہے یعنی اللہ کی حفاظت و نگہبانی میں ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ اللہ معک۔ یعنی اللہ تیرے ساتھ ہے اکثر علماء کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ تجھ پر سلامتی ہو یعنی تو مجھ سے سلامتی میں ہے اور مجھ کو بھی اپنے سے سلامتی میں رکھ۔ اس صورت میں سلام سلم سے مشتق ہوگا جس کے معنی مصالحت کے ہیں اور اس کلمہ کا مطلب یہ ہوگا کہ تو مجھ سے حفظ و امان میں رہ اور مجھ کو بھی حفظ و امان میں رکھ۔ منقول ہے کہ سلام کرنے کا طریقہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مشروع ہوا تھا اور اس کا مقصد ایک ایسی علامت کو رائج کرنا تھا جس کے ذریعہ مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جا سکے تاکہ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان سے تعرض نہ کرے گویا اس کلمہ کو اپنی زبان سے ادا کرنے والا اس بات کا اعلان کرتا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور پھر یہ طریقہ مستقل طور پر مشروع قرار پایا۔

یہ حدیث شیئر کریں