مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 564

ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے کیا حقوق ہیں؟

راوی:

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للمؤمن على المؤمن ست خصال يعوده إذا مرض ويشهده إذا مات ويجيبه إذا دعاه ويسلم عليه إذا لقيه ويشمته إذا عطس وينصح له إذا غاب أو شهد لم أجده في الصحيحين ولا في كتاب الحميدي ولكن ذكره صاحب الجامع برواية النسائي .

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان پر مسلمان کے چھ حق ہیں (ایک تو یہ ہے کہ) جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو دوسرا مسلمان اس کی عیادت کرے دوسرے یہ کہ جب کوئی مسلمان مر جائے تو دوسرا مسلمان اس کی نماز جنازہ میں شریک ہو تیسرے یہ کہ جب کوئی مسلمان کھانے پر بلائے تو بلایا جانے والا مسلمان اس کی دعوت کو قبول کرے (بشرطیکہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔ جیسے کہ اس دعوت میں باجا گا جا وغیرہ ہو یا اس دعوت کا تعلق اظہار فخر و ریا کاری سے ہو ۔چوتھے یہ کہ جب کوئی مسلمان ملے تو اس کو سلام کرے پانچویں یہ کہ جب کوئی مسلمان چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اس کا جواب دے یعنی یرحمک اللہ کہے اور اگر چھینکنے والا الحمدللہ نہ کہے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہوگا۔ اور چھٹے یہ کہ ایک مسلمان کی ہر حالت میں خیر خواہی کرے خواہ وہ حاضر ہو یا غائب اور مشکوۃ کے مولف کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو نہ تو صحیحین (بخاری و مسلم) میں پایا ہے اور حمیدی کی کتاب میں، البتہ اس کو صاحب جامع الاصول نے نقل کیا ہے۔

تشریح
" خیر خواہی کرے " کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ ہر حالت میں ایک دوسرے کے خیر خواہ و ہمدرد ہیں جو مسلمان سامنے ہے اس کے ساتھ بھی خیر خواہی کی جائے اور جو نظروں سے دور ہے اس کے ساتھ بھی خیر خواہی کریں، یہ طرز عمل اختیار نہ کرنا چاہیے کہ جب کسی مسلمان کے سامنے آئیں تو اس کے ساتھ تملق یعنی خوشامد چاپلوسی کا رویہ اپنائیں اور جب وہ سامنے نہ ہو تو غیبت کریں یہ خالص منافقانہ رویہ ہے اور منافقوں کی خاصیت ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں