مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 566

کون کس کو سلام کرے؟

راوی:

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير .

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سواری پر ہو وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے آدمی زیادہ تعداد والے آدمیوں کو سلام کریں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
جو شخص سواری پر ہو۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔ یہ حکم اصل میں تواضع و انکساری کی طرف راغب کرنے کے لئے ہے کہ کیونکہ جو شخص سواری پر ہے اس کو گویا اللہ نے پیدل چلنے والے پر برتری و فوقیت عطا فرمائی ہے لہذا اس کو فروتنی ہی اختیار کرنی چاہیے اسی طرح جو لوگ کم تعداد میں ہوں اور وہ لوگ ایسے لوگوں کو ملیں جو تعداد میں ان سے زیادہ ہوں تو ان کو بھی چاہیے کہ تواضع و انکساری کی بنا پر اور اکثریت کے احترام کے پیش نظر سلام کرنے میں ابتداء کریں۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کچھ لوگوں سے ملے اور یہ چاہے کہ ان سب کو سلام کرنے کے بجائے ان میں سے چند کو سلام کرے تو یہ مکروہ ہے کیونکہ سلام کا اصل مقصد آپس میں موانست و الفت کو فروغ دینا ہے جب کہ بعض دوسرے مخصوص لوگوں کو سلام کرنا گویا باقی لوگوں کو وحشت و اجنبیت میں مبتلا کرنا ہے اور یہ چیز اکثر اوقات نفرت و عداوت کا بھی سبب بن جاتی ہے۔ لیکن بازار اور شارع عام کا حکم اس سے الگ ہے کہ اگر بازار میں یا شارع عام پر بہت سے لوگ آ رہے ہوں تو وہاں بعض لوگوں کو سلام کرنا کافی ہوگا۔ کیونکہ اگر کوئی شخص بازار میں شارع عام پر ملنے والے ہر شخص کو سلام کرنے لگے تو وہ اسی کام کا ہو کر رہ جائے گا اور اپنے امور کی انجام دہی سے باز رہے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں