مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 569

غیر مسلم کو سلام کرنے کا مسئلہ۔

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تبدؤوا اليهود ولا النصارى بالسلام وإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه . ( متفق عليه )

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو اور جب تم راستے میں ان میں سے کسی سے ملو تو ان کو تنگ ترین راستے پر چلے جانے پر مجبور کرو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تم ان کو السلام علیکم نہ کہو کیونکہ سلام میں پہل کرنا درحقیقت اسلامی تہذیب کا بخشا ہوا ایک اعزاز ہے جس کے مستحق وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اسلامی تہذیب کے پیرو ہوں اور مسلمان ہیں اس اعزاز کا استحقاق ان لوگوں کو حاصل نہیں ہو سکتا جو دین دشمن اور اللہ کے باغی ہیں اسی طرح ان باغیوں اور دشمنوں کے ساتھ سلام اور اس جیسی دوسری چیزوں کے ذریعہ الفت و محبت کے مراسم کو قائم کرنا بھی جائز نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے۔ آیت (لاتجد قوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ)۔ ترجمہ۔ آپ ایسی کوئی قوم نہ پائیں گے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اور ان لوگوں سے بھی دوستی رکھتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں۔
ہاں اگر وہ لوگ سلام میں خود پہل کریں اور السلام علیک یا السلام علیکم کہیں تو اس کے جواب میں صرف علیک یا علیکم کہہ دیا جائے اور علماء نے لکھا ہے کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ غیر مسلم کے جواب میں ھداک اللہ کہا جائے نیز بعض علماء نے لکھا ہے کہ کسی ضرورت و مجبوری کی بناء پر یہود و نصاری کے ساتھ سلام میں پہل کرنی جائز ہے اور یہی حکم ان مسلمانوں کا بھی ہے جو بدعت اور فسق میں مبتلا ہوں۔
اسلامی سلطنت میں رہنے والے کسی مسلمان نے کسی اجنبی کو سلام کیا اور پھر معلوم ہوا کہ وہ ذمی ہے تو اس صورت میں مستحب یہ ہے کہ اپنے سلام کو واپس کرنے کا مطالبہ کرے یعنی یوں کہے کہ اسرجعت سلامی میں اپنے سلام کو واپس کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاری جو دین کے دشمن ہیں اور اپنے مکر و فریب کی طاقتوں کے ذریعہ اللہ کے جھنڈے کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں اس سلوک کے مستحق ہیں کہ جب وہ راستہ میں ملیں تو ان پر اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ یکسو ہو کر گزرنے پر مجبور ہو جائیں اور ان پر راستہ تنگ ہو جائے تاکہ اسلام کی عظمت و شوکت اور مسلمانوں کا دبدبہ ظاہر ہر۔ مشکوۃ کے بعض حواشی میں یہ مطلب لکھا ہے کہ ان کو یہ حکم دو کہ وہ ایک طرف ہو جائیں اور کنارے پر چلیں تاکہ راستے کا درمیانی حصہ مسلمانوں کی آمدورفت کے لئے مخصوص رہے۔

یہ حدیث شیئر کریں