مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 571

یہودیوں کی شرارت

راوی:

وعن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا وعليكم ( متفق عليه )

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اہل کتاب یعنی یہود و نصاری تمہیں سلام کریں تو تم ان کے جواب میں کہو وعلیکم۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
پہلی روایت میں لفظ " فقل" اور " وعلیک" بصیغہ مفرد ہے اور اس روایت میں " فقولوا " اور وعلیکم" بصیغہ جمع ہے اسی طرح اور روایتوں میں " وعلیک" اور" وعلیکم" واؤ کے ساتھ اور بغیر واؤ کے دونوں طرح منقول ہے مشکوۃ کے مؤلف نے یہاں جو روایت نقل کی ہے اس میں ان دونوں کو واؤ کے ساتھ نقل کیا ہے موطا کی روایت میں علیک بغیر واؤ کے اور دارقطنی کی روایت میں علیکم بغیر واؤ کے منقول ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ زیادہ صحیح اور مختار قول یہ ہے کہ مذکورہ لوگوں کے سلام کے جواب میں یہ لفظ بغیر واؤ کے یعنی " علیک" یا " علیکم" ہی کہا جائے تاکہ اس چیز میں مشارکت لازم نہ آئے جو ان کی زبان سے ادا ہوتی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس لفظ کا مطلب یہ ہو گا کہ جس موت کو برا سمجھ کر گویا ہمیں اس کی بدعا دے رہے ہو اس میں ہم اور تم برابر ہیں کہ ہم سب ہی کو موت یعنی مرنا ہے۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ حرف واؤ یہاں مشارکت کے نہیں ہے بلکہ استیناف کے لئے ہے اس صورت میں یہ لفظ مفہوم کے اعتبار سے اس جملہ کا قائم مقام ہو گا کہ وعلیکم ما تستحقونہ من الذم۔ اور تجھ پر وہ برائی پڑے جس کا تو مستحق ہے) تاہم یہ بات واضح رہے کہ یہ لفظ احادیث میں چونکہ دونوں طرح منقول ہے کہ بعض روایتوں میں واؤ کے ساتھ اور بعض روایتوں میں بغیر واؤ کے ، اس لئے اس سلسلے میں درست بات یہ ہے کہ دونوں طرح کہنا جائز ہے۔
نووی کہتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل کتاب کے سلام کا جواب دیا جائے لیکن وعلیکم السلام نہ کہا جائے یعنی جواب دینے والا نہ تو علیکم السلام کہے اور نہ علیک السلام بلکہ صرف وعلیکم یا علیک کہے بلکہ وعلیکم بھی اس صورت میں کہے جب وہ ایک سے زائد ہوں اگر ایک ہی ہو تو علیکم نہ کہے۔ کیوں کہ اس طرح اس کی تعظیم و توقیر لازم آئے گی۔

یہ حدیث شیئر کریں