مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نیکی و صلہ رحمی کا بیان ۔ حدیث 845

صلہ رحم کی اہمیت

راوی:

وعن عمرو بن العاص قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن آل فلان ليسوا لي بأولياء إنما وليي الله وصالح المؤمنين ولكن لهم رحم أبلها ببلالها . متفق عليه

" اور حضرت عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابوفلاں کی اولاد میرے دوست نہیں ہیں میرا دوست اللہ ہے یا نیک بخت مومنین البتہ ان لوگوں سے میری قرابت داری ہے جس کو میں تر چیزوں سے تر کرتا رہتا ہوں ۔
تشریح
" ابوفلاں کی اولاد " کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں صریح نام لیا تھا کہ راوی نے اس ارشاد گرامی کو بیان کرتے وقت اس نام کو صریح ذکر نہیں کیا بلکہ لفظ ابوفلاں کے ذریعہ اشارہ فرمایا اور صریح ذکر نہ کرنے کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ راوی نے جس موقع پر اس ارشاد گرامی کو بیان کیا اس وقت اس نام کو صراحتہ ذکر کرنے سے کسی فتنہ کے اٹھ کھڑے ہونے کا خوف ہوگا، بخاری ومسلم کے اصل نسخوں میں بھی لفظ ابی کے بعد جگہ کو خالی چھوڑا گیا ہے کسی نام کو صراحتہ ذکر نہیں کیا گیا اور اس کی علت بھی وہی ہے رہی ہے یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں جس نام کو صراحتہ ذکر فرمایا تھا وہ کیا ہے؟ تو محقیقن نے کہا ہے کہ وہ ابولہب ہے اور بعض حضرات نے ابوسفیان یا حکم بن العاص بیان کیا ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا جو مفہوم ہے اس کا تعلق کسی خاص فرد کی اولاد سے نہیں ہے بلکہ آپ کی مراد عمومی طور پر اپنے قبیلہ و خاندان کے افراد ہیں جیسے کہ اہل قریش یا بنو ہاشم اور یاا نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاؤں کی اولاد۔
" میرے دوست نہیں ہیں" سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس بات کو واضح کرنا تھا کہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ میری مالی امداد ومعاونت اور ان کو دینا دلانا اس سبب سے نہیں ہے کہ میں ان کو زیادہ محبوب رکھتا ہوں اور مجھ کو ان سے کچھ زیادہ روحانی و باطنی تعلق ہے بلکہ چونکہ وہ میرے قرابتی ہیں اس لئے میں قرابت کا حق ادا کرنے کے لئے ان کی مالی امداد کرتا رہتا ہوں ورنہ جہاں تک باطنی و روحانی تعلق اور محبت کا سوال ہے تو مجھ کو زیادہ تعلق اور زیادہ محبت اس شخص سے ہے جو مومن صالح ہے خواہ وہ میرا قرابتی ہو یا غیر قرابتی چنانچہ میرا دوست اللہ ہے یا نیک بخت مومنین میں نیک بخت سے جنس صلحاء یعنی تمام نیک وبخت مسلمان مراد ہیں اگرچہ بعض حضرات نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور بعض حضرات نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مراد قرار دیا ہے۔
" جس کو میں تر چیزوں سے تر کرتا رہتا ہوں " کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ چونکہ میری قرابت دار ہیں اس لئے میں ان کے ساتھ مدد و تعاون کا سلوک کرتا ہوں اور ان کو مال وغیرہ دیتا رہتا ہوں تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں دراصل تری اور نرمی چونکہ متفرق اجزاء اور اشیاء میں جوڑنے اور ملانے کا ایک ذریعہ بنتی ہیں اور اس کے برخلاف خشکی اور سختی چونکہ اشیاء کے باہمی افتراق و انتظار کا سبب بنتی ہے اس لئے اہل عرب اپنے کلام میں بطور استعارہ لفظ بل یعنی تری اور نرمی کو صلہ رحم، ناتا جوڑنے کے معنی میں اور یبس یعنی خشکی کو ناتا توڑنے اور ترک تعلق کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں