مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نیکی و صلہ رحمی کا بیان ۔ حدیث 847

دوسروں کے ماں باپ کو برا کہہ کر اپنے ماں باپ کو برا نہ کہلواؤ

راوی:

وعن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من الكبائر شتم الرجل والديه . قالوا يا رسول الله وهل يشتم الرجل والديه ؟ قال نعم يسب أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه فيسب أمه . متفق عليه

" اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اپنے ماں باپ کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں کبھی کبھار تو حقیقت میں بھی کوئی جاہل شخص اپنے ماں باپ کو گالی بک دیتا ہے اور یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ماں باپ کو اگرچہ حقیقت خود گالی نہیں دیتے مگر ان کو گالی دلوانے کا سبب ضرور بنتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ (بخاری)
تشریح
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ اپنے ماں باپ کو گالی دینا اور برا بھلا کہنا تو گناہ کبیر ہے ہی لیکن جو شخص کسی کے ماں باپ کو گالی دے کر اپنے ماں باپ کو گالی دینے اور ان کو برا بھلاکہلوانے کا سبب بنے وہ بھی گناہ کبیرہ کا مرتکب قرار پایا جائے کیونکہ اگر وہ اس شخص کے ماں باپ کو گالی نہ دیتا تو وہ شخص بھی اس کے ماں باپ کو گالی نہ دیتا لہذا جب وہ اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا باعث بنا تو گویا اس نے خود کو گالی دی اور ماں کو گالی دینا عقوق والدین یعنی نافرمانی اور تمردد و سرکشی میں داخل ہے جو حرام ہے۔
گر مادر خویش دوست داری وشنام مدہ بمادر من
مذکورہ بالا حدیث سے یہ مسئلہ بھی نکلا کہ اگر کوئی شخص کسی فسق و معصیت کا سبب و ذریعہ بنے گا تو اس کا شمار بھی فسق و معصیت کے مرتکب کی حثییت سے ہو گا اور درجہ کا گناہ گار بھی ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں