مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ ممنوع چیزوں یعنی ترک ملاقات انقطاع تعلق اور عیب جوئی کا بیان ۔ حدیث 938

علماء اور اولیاء اللہ کے ساتھ محبت رکھنے والے آخرت میں ان ہی کے ساتھ ہوں گے۔

راوی:

وعن أنس أن رجلا قال يا رسول الله متى الساعة ؟ قال ويلك وما أعددت لها ؟ قال ما أعددت لها إلا أني أحب الله ورسوله . قال أنت مع من أحببت . قال أنس فما رأيت المسلمين فرحوا بشيء بعد الإسلام فرحهم بها . متفق عليه

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ سے ایک شخص نے یہ سوال کیا یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر افسوس ہے؟ کیا تم نے قیامت کے لئے کوئی تیاری کر رکھی ہے؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا یہ سوال اچھا نہیں لگا اور آپ کو گمان ہوا کہ اس شخص نے اچھا اعتقاد رکھتے ہوئے از راہ خودی یہ سوال نہیں کیا ہے بلکہ قیامت کے آنے کو ایک دور دراز کی بات سمجھتے ہوئے لاپرواہی کے طور پر یہ سوال کیا ہے چنانچہ آپ نے اس کو جواب بھی اسی انداز میں دیا کہ یہ کیا پوچھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی، تم اپنا عقیدہ و عمل درست رکھو اور اچھے کام کرو، جب قیامت کے دن کو آنا ہوگا آ جائے گا، لیکن جب اس شخص نے یہ عرض کیا کہ میں نے کوئی تیاری نہیں کی البتہ میرے پاس ایک دولت ضرور ہے وہ یہ کہ میں اللہ اور اللہ کے رسول سے محبت رکھتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جانا کہ اس شخص کا مذکورہ سوال ایک مخلص کامل مومن کے اعتقاد کا مظہر ہے اور از راہ خوف ہے کسی لاپرواہی کا غمازہ نہیں ہے چنانچہ آپ نے فرمایا تم دنیا و آخرت میں اسی کے ساتھ ہو، جس سے محبت رکھتے ہو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے مسلمانوں کو اسلام کے بعد کسی چیز سے اتنا زیادہ خوش نہیں دیکھا جتنا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے خوش ہوئے۔ بخاری ومسلم۔

تشریح
اس شخص نے تیاری کے زمرہ میں صرف اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ محبت کو ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ دوسری بدنی و قلبی اور مالی عبادتوں کا اس نے کوئی ذکر نہیں کیا جن سے اس کی زندگی یقینا خالی نہیں تھی، اس کی وجہ ایک تو اظہار عجز و انکساری اور اپنے مرتبہ عبودیت کا اخفاء تھا جو ایک مخلص مومن کی شان ہے دوسری وجہ یہ تھی کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ محبت ہی اصل چیز ہے اور تمام عبادتیں اسی محبت کی شاخیں اور اس کا لازمی اثر ہوتی ہیں، جس شخص کا قلب اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت سے سرشار ہو جاتا ہے، عبادت و طاعت خود بخود اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے علاوہ ازیں صرف محبت کو ذکر کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ محبت بذات خود سب سے اعلی مرتبہ ہے کیونکہ جو شخص اللہ سے محبت کرتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ بھی محبت کرتا ہے جیسا کہ خود اللہ نے فرمایا ہے، یحبھم ویحبونہ، اور ایک جگہ یوں فرمایا: آیت (ان کنتم تحبون) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ظاہر ہے کہ جس بندے کو محبت الٰہی کی دولت حاصل ہو جائے اس کی دنیاوی و اخروی فلاح نجات میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
" تم اسی کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی ذات سے اس درجہ کا تعلق رکھتا ہے کہ اس کی محبت دوسری تمام چیزوں یہاں تک کہ اپنے مال اپنے اہل و عیال اور اپنی جان تک کی محبت پر غالب ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کے ساتھ منسلک و ملحق و ہو جاتا ہے اور اس کا شمار محبوب کے اپنے لوگوں میں ہونے لگتا ہے اور محبت صادقہ یا عشق حقیقی کی علامت یہ ہے کہ وہی کام کرے جس کا محبوب حکم کرتے ہیں یا جو محبوب کی رضا و خوشنودی کا باعث ہو اور ہر اس کام سے اجتناب کرے جو محبوب کے حکم و مرضی کے خلاف ہو اور اس کے غیر کی مرضی و مراد کو پورا کرنے والا ہو، لہذا تم اگر اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہو تو اپنے عقیدہ و قول اور فعل عمل سے اس دعوے کو ثابت کرتے رہو، بایں طور کہ فرائض و واجبات کی بجا آوری کرو حق تعالیٰ جن امور سے راضی و خوش ہو جاتا ہے ان کو ہمیشہ اختیار کرو، اور اس نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان کے قریب بھی مت جاؤ، اسی بات کو مشہور صوفی خاتون حضرت رابعہ بصری نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے۔
ترجمہ۔ تم اللہ کی نافرمانی اختیار کئے ہوئے درآنحالیکہ تم اس کی محبت کا دم بھرتے ہو اپنی جان کی قسم یہ چیز قیاس میں بھی آ سکتی اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو یقنا تم اس کی اطاعت کرتے کیونکہ محبت کرنے والا درحقیقت اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔
ا نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر مسلمانوں کا بہت زیادہ خوش ہونا اس بنا پر تھا کہ پہلے ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جنت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت محج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور آپ کی متابعت کی وجہ سے حاصل نہیں ہو گی بلکہ اس سعادت کو حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ عبادت میں مشغول رہن اور کثرت کے ساتھ ریاضت و مجاہدہ اختیار کرنا ضروری ہے چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا بات ارشاد فرمائی تو صحابہ کو بہت زیادہ خوشی ہوئی اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو علامہ عماد الدین ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابی حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ حقیقت میں آپ مجھ کو اپنی جان اپنے اہل خانہ اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز محبوب ہیں میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کے تصور میں کھویا رہتا ہوں جب آپ کی یاد بہت ستاتی ہے تو روئے انور کی زیارت کے بغیر چین نہیں ملتا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہوں، اور آپ کی زیارت کر کے تسکین حاصل کرتا ہوں جب مجھے اپنی موت کا خیال آ جاتا ہے اور اس دنیا سے آپ کے رخصت ہو جانے کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ آپ جنت میں جائیں گے جنت کے سب سے اعلی درجہ میں انبیاء کے ساتھ ہوں گے اور اگر اللہ نے مجھے بھی جنت میں داخل کر دیا تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں آپ کی زیارت سے محروم رہوں گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی کی یہ بات سنی لیکن کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی،
ا یت (وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰ ى ِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّ نَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَا ءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُولٰ ى ِكَ رَفِيْقًا) 4۔ النساء : 69)۔ جس نے ضروری احکام میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی وہ جنت میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام نازل کیا ہے یعنی انبیاء، صدیق، شہداء، اور صالحین ۔
رہی یہ بات کہ یہاں معیت سے کیا مراد ہے تو جاننا چاہیے کہ معیت سے مراد یہ نہیں کہ محبت کرنے والا اور محبوب دونوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی جو کیفیت ایک حدیث میں بیان کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اعلی درجہ والے ان لوگوں کے پاس آئیں گے جو نیچے کے درجات میں ہوں گے اور پھر سب جنت کے باغات میں یکجا ہوں گے وہاں ایک دوسرے کی زیارت و ملاقات ہوگی اور درجہ عالیہ والے ان چیزوں کی ذکر کریں گے جو ان کو اللہ کی طرف سے بطور انعام حاصل ہوئی ہوں گی، اور حق تعالیٰ انعامات و اکرامات پر اس کی حمد و ثناء کریں گے پھر درجات سافلہ والے ان کی خاطر و تواضع کریں گے اور دوڑ دوڑ کر وہ چیزیں لائیں گے اور ان کو دیں گے جن کی وہ خواہش و طلب کریں، غرضیکہ اسی طرح وہ سب جنت کے باغات میں اس طرح کی تقریب سے لطف اندوز و مسرور ہوا کریں گے۔
واضح رہے کہ متابعت اور ضروری احکام کے مدارج مختلف ہوتے ہیں لہذا جس درجہ کے احکام ضروریہ میں اطاعت ہوگی اسی درجہ کی محبت بھی شمار ہوگی، اور جس درجہ کی محبت یا جس درجہ کا حسن معاملہ ہوگا اسی درجہ کی یہ معیت و ملاقات بھی نصیب ہو گی۔

یہ حدیث شیئر کریں