مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان ۔ حدیث 960

دروغ مصلحت آمیز

راوی:

وعن أم كلثوم بنت عقبة بن أبي معيط قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ليس الكذاب الذي يصلح بين الناس ويقول خيرا وينمي خيرا . متفق عليه . وزاد مسلم قالت ولم أسمعه تعني النبي صلى الله عليه وسلم يرخص في شيء مما يقول الناس كذب إلا في ثلاث الحرب والإصلاح بين الناس وحديث الرجل امرأته وحديث المرأة زوجها . وذكر حديث جابر إن الشيطان قد أيس في باب الوسوسة

" اور حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابومعیط رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو اپنی جھوٹی باتوں کے ذریعہ لوگوں کے درمیان اصلاح کرے یعنی باہمی عداوت رکھنے والوں کے درمیان صلح و صفائی کرائے (آپس میں دشمنی رکھنے والوں میں سے ہر ایک سے ) بھلی بات کہے اور ہر ایک کی طرف سے دوسرے کو بھلی بات پہنچائے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا ہے کہ میں نے اس ذات گرامی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی بات نہیں سنی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی بات کی اجازت دی ہو جس کو لوگ جھوٹ کہتے ہیں یعنی آپ نے کسی معاملہ میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی، علاوہ تین باتوں کے ایک تو جنگ کی حالت میں دوسرے لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے میں اور تیسرے جبکہ شوہر اپنی بیوی سے باتیں کر رہا ہو اور بیوی اپنے شوہر سے باتیں کر رہی ہو۔ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت
ان الشیطان قد ایس، الخ۔ باب الوسوسہ میں نقل کی جا چکی ہے۔

تشریح
" بھلی بات پہنچائے۔ یعنی صلح کرانے والا شخص دونوں فریقوں میں سے ہر ایک کی طرف سے دوسرے فریق کو وہ بات پہنچائے جو حقیقت میں اس فریق نے نہ کہی ہو اور وہ بات اس طرح کی ہو جس سے دونوں کے درمیان صلح دوستی کے جذبات پیدا کرنے میں مدد ملتی ہو مثلا وہ دونوں فریق میں سے کسی کے پاس جائے اور اس سے یوں کہے کہ تم اس دوسرے فریق سے خواہ مخواہ کی عداوت رکھتے ہو حالانکہ وہ تمہارا بڑا خیر خواہ ہے اور تمہارے حق میں اچھی بات کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کرتا اس نے تمہیں سلام کہا ہے اور تمہارے تئیں دوستی و خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
جنگ کی حالت میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اس کا تعلق ایسی باتیں کہنے سے ہے جن سے مسلمانوں کی طاقت و قوت کا اظہار ہوتا ہو اپنے لشکر کے لوگوں کا حوصلہ بڑھتا ہو اور ان کے دل قوی ہوتے ہوں اور دشمن کے لشکر کا فریب کھا جانا ممکن ہو اگرچہ وہ باتیں حقیقت کے بالکل خلاف ہوں، مثلا یوں کہا جائے کہ ہمارے لشکر کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دشمن کا لشکر کچھ بھی حثییت نہیں رکھتا اور ہمارے لشکر کی مدد کے لئے مزید کافی کمک آ رہی ہے یا اپنے سامنے کھڑے ہوئے دشمن سے یوں کہا جائے کہ دیکھ سنبھل جا فلاں شخص تجھے ختم کر دینے کے لئے تیرے پیچھے آ پہنچا ہے اور پھر جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے لگے اور اس کا دھیان سامنے سے ہٹ جائے تو موقع سے فائدہ اٹھا کر اس پر وار کر دیا جائے۔ میاں بیوی کی باتوں میں جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ مثلا میاں بیوی سے یا بیوی میاں سے اپنے اتنے زیادہ پیار و محبت کا اظہار کرے جو حقیقت کے خلاف ہو اور اس سے مقصد یہ ہو کہ آپس میں محبت و الفت زیادہ بڑھے۔

یہ حدیث شیئر کریں