مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نرمی و مہربانی حیاء اور حسن خلق کا بیان ۔ حدیث 984

آہستگی و بردباری کی فضیلت اور جلد بازی کی مذمت

راوی:

عن سهل بن سعد الساعدي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال الأناة من الله والعجلة من الشيطان . رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب . وقد تكلم بعض أهل الحديث في عبد المهيمن بن عباس الراوي من قبل حفظه

" اور حضرت سہل بن ساعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کسی کام میں آہستگی و بردباری اللہ کی طرف سے ہے یعنی یہ خوبی الہام الٰہی کے ذریعہ کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے اور جلد بازی شیطان کی خصلت ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے نیز بعض محدثین نے اس حدیث کے راوی عبدالمہیمن ابن عباس کی یاد داشت کے بارے میں کلام کیا ہے یعنی انہوں نے کہا ہے کہ عبدالمہیمن کا حافظہ زیادہ اچھا نہیں تھا اگرچہ ان کے عدل و ثقہ میں کوئی شبہ نہیں ۔

تشریح
اس حدیث کو بیہقی نے بھی شعب الایمان میں بطریق مرفوع نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ " التانی من اللہ والعجلۃ من الشیطان" ۔
اور جلد بازی شیطان کی خصلت ہے کا مطلب یہ ہے کہ کسی دنیاوی کام میں غور و فکر نہ کرنا، اس کے انجام پر نظر رکھے بغیر اس کو شروع کر دینا اور جلد بازی کی روش اختیار کرنا ایک ایسی خصلت ہے جس کو شیطان وسوسوں اور واہمات کے ذریعہ انسان کے اندر پیدا کرتا ہے جس سے اس کا مقصد اس کے کام کو خراب کرنا ہے اور خود اس کو پریشانیوں میں مبتلا کرنا ہے بعض حضرات نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس سے وہ امور مستثنی ہیں جن کی خیر و برکت میں کوئی شبہ نہیں یعنی اچھی چیزوں میں غفلت کرنا شیطان کی خصلت نہیں ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا: یسارعون فی الخیرات۔ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ جہاں تک عبادات و طاعات کا تعلق ہے تو جاننا چاہیے کہ ایک تو کسی عبادت و طاعت کی طرف سرعت و جلد رویہ کو اختیار کرنا ہے اور دوسرے اس عبادات و طاعت کو کرتے وقت جلد بازی کرنا ہے ظاہر ہے کہ ان دونوں کے درمیان فرق ہے چنانچہ اول الذکر ایک مطلوب و مستحسن چیز ہے اور ثانی الذکر ایک مذموم خصلت ہے اس بات کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جائے کہ ایک تو نماز کے لئے جلدی کرنا اور ایک نماز میں جلدی کرنا نماز کے لئے جلدی کرنا تو یہ ہے کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو اس کو ادا کرنے میں تاخیر نہ کرنا جلدی جلدی تیاری کرے نماز پڑھنے لگے۔ یہ چیز صرف یہ ہے کہ اس جلد بازی میں شامل نہیں ہے جس کی برائی بیان کی گئی ہے بلکہ یہ ایک مستحسن عمل ہے اور نماز میں جلدی کرنا یہ ہے کہ جب نماز پڑھنے لگے تو اس نماز سے جلد از جلد فارغ ہو جانے کی خاطر اس کے ارکان و افعال کی ادائیگی میں عجلت کرنے لگے یہ چیز یعنی کسی نیک کام کو جلد بازی سے پورا کرنا مذموم ہے لہذا ملا علی قاری کے مذکورہ الفاظ کا حاصل یہ نکلا کہ فرق شوق سے کسی اچھے کام کی طرف لپکنا اور اس کی انجام دہی کے لئے جلد از جلد تیار ہونا ایک اچھی چیز ہے اور اس اچھے کام کو جلد بازی کے ساتھ کرنا ایک بری چیز ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں