مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نرمی و مہربانی حیاء اور حسن خلق کا بیان ۔ حدیث 987

توقف وتاخیر نہ کرو

راوی:

وعن مصعب بن سعد عن أبيه قال الأعمش لا أعلمه إلا عن النبي صلى الله عليه وسلم قال التؤدة في كل شيء إلا في عمل الآخرة . رواه أبو داود

" اور حضرت مصعب بن سعد نے اپنے والد سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کے بارے میں حدیث کے راوی حضرت اعمش کہتے ہیں کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس حدیث کو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے اور وہ یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا توقف و تاخیر ہر عمل میں بہتر ہے مگر آخرت کے عمل میں نہیں ۔ (ابوداؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں توقف نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کو فورا کر لینا چاہیے کیونکہ نیک کام میں تاخیر کا مطلب بہت سی آفات اور کو تاہیوں کا خطرہ مول لینا ہے علاوہ ازیں دنیاوی امور کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اگر کسی دنیاوی کام کو کیا جائے تو ابتداء میں عام طور پر اس کے انجام کا حال معلوم نہیں ہوتا کہ آیا اس کا انجام یقینی طور پر اچھا ہوگا جس کی وجہ سے اس کو فورا کر لینا ضروری ہو یا اچھا نہیں ہوگا کہ اس کے کرنے میں تاخیر کی جائے لہذا تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے دنیاوی کام میں توقف و تاخیر اختیار کر لو اور کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اچھی طرح غور و فکر کر لو اس کے خلاف دینی کاموں کا انجام چونکہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا علم نہ ہو اس لئے ان میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہوتی علاوہ ازیں قرآن کریم میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ " نیکی بھلائی کے کاموں میں سبقت عجلت کرو اور مغفرت و بخشش کی طرف لپکو جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے۔

تشریح
امام غزالی نے اللہ کے ارشاد آیت (الشیطان یعدکم الفقر) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مومن کے لئے مناسب یہ ہے کہ جونہی اس کے دل میں اللہ کے نام پر اپنا مال خرچ کرنے کا داعیہ پیدا ہو تو وہ اس نیک کام میں قطعا تاخیر نہ کرے کیونکہ جب کوئی شخص اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالنے لگتا ہے کہ اگر اپنا مال خرچ کر دے گا تو کنگال ہو جائے گا اسی طرح وہ اس کو فقر افلاس سے ڈراتا ہے اور صدقہ خیرات کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے لہذا توقف تاخیر کرنے کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ شیطان کا داؤ چل جائے اور اس نیکی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک دن بیت الخلاء میں تھے کہ انہوں نے وہیں سے اپنے شاگرد کو آواز دی کہا کہ میرے بدن کی قمیص اتار کر فلاں شخص کو دیدو شاگرد نے یہ سن کر کہا یہ بات آپ بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد بھی کہہ سکتے تھے اس قدر بے صبری کی کیا وجہ ہے انہوں نے فرمایا کہ جیسے ہی میرے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ میں یہ قمیص فلاں ضرورت مند کو دیدوں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ فورا یہ نیک کام کر دوں کیونکہ میں اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کر سکتا نہ معلوم اس کا ارادہ کب بدل جائے اور میں اس نیکی سے محروم رہ جاؤں۔

یہ حدیث شیئر کریں