مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نرمی و مہربانی حیاء اور حسن خلق کا بیان ۔ حدیث 988

نبوت سے تعلق رکھنے والی صفات کا ذکر

راوی:

وعن عبد الله بن جرجس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال السمت الحسن والتؤدة والاقتصاد جزء من أربع وعشرين جزءا من النبوة . رواه الترمذي

" اور حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک راہ روش کسی کام میں آہستگی اور غور و فکر کے لئے تاخیر کرنا، اور میانہ روی وہ خوبیاں ہیں جو نبوت کے چوبیس اجزاء سے ایک جز ہے۔ (ترمذی)

تشریح
میانہ روی کے معنی ہیں کہ ہر کام اور ہر حالت میں درمیانی راہ اختیار کرنا اور افراط و تفریط سے اجتناب کرنا جیسے خرچ کرنے میں نہ تو اسراف کرنا اور نہ بخل کرنا بلکہ درمیانی طریقہ یعنی جود و سخاوت اخیتار کرنا۔ یا ہمت و حوصلہ کے اظہار کے موقع پر نہ تو تہور دکھانا اور نہ بزدل بن جانا بلکہ درمیانی راہ شجاعت کو اختیار کرنا یا اعتقادی اور نظریاتی معاملات میں بھی میانہ روی اختیار کرنا کا مطلب یہ ہے کہ اسی عقیدہ پر اعتماد کیا جائے اور وہی نظریہ اپنایا جائے جو دین و دیانت اور عقل دانش کے اعتبار سے متعدل سمجھا جائے مثلا ایک عقیدہ جبر کا ہے اور ایک قدر کا ہے یہ دونوں عقیدے افراط کے حامل ہیں ان دونوں کے برخلاف درمیانی عقیدہ وہ ہے جو اہل سنت والجماعت کا ہے اسی طرح میانہ روی اختیار کرنے کے حکم کا تعلق معیشت سے ہے اور اس کی درمیانی عقیدہ وہ ضروریات زندگی پر نہ تو اتنا خرچ کیا جائے جو اسراف و عیش کی حد تک ہو اور نہ اس قدر کم خرچ کیا جائے جو تنگی تکلیف میں مبتلا کر دے بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال پیدا کیا جائے جیسا کہ خود ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ " خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا معیشت کا آدھا سرمایہ ہے۔غرض کہ انسانی زندگی کے ہر گوشہ اور ہر فعل عمل میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے اور یہی چیز یعنی ہر ایک امر میں اعتدال اختیار کرنا وہ کمال ہے جو انسان کو اس کی مراد اور اس کے مقاصد تک پہنچاتا ہے کیونکہ بہت دوڑ کر چلنے والاگر جاتا ہے اور سست رفتاری سے چلنے والا بچھڑ جاتا ہے صرف اعتدال کی چال چل کر ہی منزل پر پہنچا جا سکتا ہے۔ اس لئے اللہ نے متعدد مواقع پر راہ اعتدال کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ایک جگہ یوں فرمایا ہے کہ " کھاؤ پیو اور اسراف سے اجتناب کرو۔ بعض عارفین نے کہا ہے کہ علم و عمل میں بھی میانہ روی کی بڑی اہمیت ہے اور اس کی وجہ سے مختلف عملی آفات سے بچا جا سکتا ہے چنانچہ حصول علم میں اتنی مشغولیت بہتر ہے جو عمل سے باز نہ رکھے اور عمل میں اسی قدر انہماک روا ہے جو حصول علم سے باز نہ رکھے ۔ نبوت کے چوبیس اجزاء میں سے ایک جز ہے۔ کے بارے میں شارحین نے لکھا ہے کہ یا تو یہ سب چیزیں مل کر ایک جزء کا درجہ رکھتی ہیں یا ان میں سے ہر ایک چیز ایک جزء ہے اور اس کا جزء کا مطلب یہ ہے کہ یہ خوبیاں اور صفات ان خوبیوں اور صفات میں سے ایک ہیں جن سے انبیاء کرام متصف مزین ہوتے ہیں رہی یہ بات کی اجزاء نبوت کے عدد کے تعین سے کیا مراد ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اس کی مراد صرف شارع ہی بیان فرما سکتے ہیں جس کو بیان نہیں فرمایا گیا یوں بیان کرنے کو مختلف باتیں کہی جا سکتی ہیں مگر اس کی حقیقت تک چونکہ نور نبوت کے علاوہ کوئی بھی انسانی فہم و ادراک نہیں پہنچ سکتا اس لئے اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں کہنا چاہیے اور اس کو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کرنا چاہیے۔

یہ حدیث شیئر کریں