مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ غصہ اور تکبر کا بیان ۔ حدیث 998

نرمی ومہربانی کی فضیلت

راوی:

عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن الله تعالى رفيق يحب الرفق ويعطي على الرفق ما لا يعطي على العنف وما لا يعطي على ما سواه . رواه مسلم . وفي رواية له قال لعائشة عليك بالرفق وإياك والعنف والفحش إن الرفق لا يكون في شيء إلا زانه ولا ينزع من شيء إلا شانه

" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نرم و مہربان ہے اور نرمی و مہربانی کو پسند کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خود بھی نرم و مہربان ہے اور ان کو ایسے امور کا مکلف قرار نہیں دیتا جو ان کی قوت برداشت سے باہر ہوں اور جن کی وجہ سسے وہ دشواریوں اور سختیوں میں مبتلا ہوں اور وہ بندے کے تئیں بھی اس بات کو پسند کرتا ہے اور اس سے راضی و خوشی ہوتا ہے کہ وہ آپس میں نرمی و مہربانی کریں اور ایک دوسرے کو سختیوں اور دشواریوں میں مبتلا نہ کریں ۔ اس لئے وہ نرمی و مہربانی پر وہ چیز عطا فرماتا ہے جو درشتی سختی پر عطا نہیں فرماتا اور نرمی و مہربانی پر جو چیز عطا کرتا ہے وہ نرمی و مہربانی کے علاوہ کسی چیز پر عطا نہیں فرماتا۔ مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا نرمی و مہربانی کو لازمی طور پر اختیار کرو اور سختی اور بے حیائی سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ کیونکہ جس چیز میں نرمی ہوتی ہے اور اس کو زینت بخشی جاتی ہے اور جس چیز میں سے نکالی جاتی ہے وہ عیب دار ہو جاتی ہے۔

تشریح
اللہ تعالیٰ نرم و مہربان ہے اور نرمی و مہربانی کو پسند کرتا ہے، کے ذریعے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کا نرمی و مہربانی کو پسند کرنا خود بندوں کے اس مفاد و مصالح کے پیش نظر ہے کہ آپس میں نفرمی و مہربانی اور شفقت و مروت کے جذبات کو فروغ دینا ایک ایسی خوبی ہے جس کے ذریعہ معاشرہ کو مطمئن و پر سکون اور انسانی زندگیوں کو مختلف پریشانیوں اور بے چینیوں سے محفوظ رکھنا ہے چنانچہ جس معاشرہ کے افراد اپنے تمام امور میں ایک دوسرے سے نرم خوئی اور مہربانی کا برتاؤ کرتے ہیں ایک دوسرے کو سختیوں اور پریشانیوں میں مبتلا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور باہمی معاملات کو سہولت و آسانی کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں اور ان امور معاملات کا تعلق خواہ حصول معاش سے یا اس کے علاوہ معاشرتی زندگی کے کسی بھی پہلو سے ہو تو اس معاشرہ کا ہر فرد اپنے آپ کو فلاح یاب محسوس کرتا ہے اور پورے معاشرہ پر حق تعالیٰ کی طرف سے خیر و برکت اور اس کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے چنانچہ، ویعطی علی الرفق۔ کے ذریعہ نہ صرف یہ ترغیب دلائی گئی کہ اپنے امور معاملات میں باہمی نرمی و مہربانی کو اختیار کرو تاکہ حصول مقصد کو پہنچ سکو بشارت بھی دی گئی ہے کہ جو لوگ سختی کے بجائے نرمی و مہربانی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ان کو حق تعالیٰ اجر و ثواب عطا فرماتا ہے اور مقاصد میں کامیاب و کامران کرتا ہے۔
" اور نرمی و مہربانی پر جو چیز عطا کرتا ہے" یہ جملہ ماقبل عبارت کے مفہوم کو ایک دوسرے انداز میں کر رہا ہے یعنی پہلے تو نرمی و مہربانی کو سختی پر ترجیح دی گئی ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی طرف سے اجر و ثواب اور حصول مقصد کی جو نعمت نرمی و مہربانی اختیار کرنے پر ہوتی ہے وہ سختی اختیار کرنے پر نہیں ہوتی اور پھر آگے اس جملہ کے ذریعہ اس طرف اشارہ فرمایا کہ نرمی و مہربانی اپنی ضد یعنی سختی ہی پر نہیں بلکہ حصول مقصد کے اور دوسرے اسباب و وسائل پر بھی ترجیح و فضیلت رکھتی ہے البتہ اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اسباب وسائل از قسم نرمی ہوں تو ترجیح و فضیلت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر از قسم سختی ہوں تو نرمی و مہربانی کا سختی پر فضیلت و ترجیح رکھنا ماقبل عبارت سے واضح ہو ہی چکا ہے اس کے بعد اسی مفہوم کو دورباہ بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ دونوں جملوں کی عبارت میں ظاہری طور پر تفاوت ہے مگر حقیقت میں یہ دوسرا جملہ ماقبل عبارت کو مؤ کد کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور دونوں جملوں کا مقصد اس بات کو زیادہ اہمیت دینا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنے مقاصد جیسے حصول معاش وغیرہ کی طلب اور سعی اور جدوجہد میں ایسا رویہ اختیار کرے جو نرم خوئی مہربانی اور ایک دوسرے کے ساتھ لحاظ و مروت کا ہو کیونکہ انسان کو اس کی مطلوب چیز دینے والا حقیقت میں اللہ ہے اور چونکہ نرمی و مہربانی اس کے نزدیک محبوب ہے اس لئے وہ نرمی و مہربانی کا رویہ اختیار کرنے والے کو زیادہ عطا فرماتا ہے بہ نسبت اس شخص کے جو اپنے مقاصد کے حصول میں سختی و درشتی اور عامیانہ انداز و رویہ اختیار کرتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں