مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حشر کا بیان ۔ حدیث 107

حشر کا ذکر

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يحشر الناس على ثلاث طرائق راغبين راهبين واثنان على بعير وثلاثة على بعير وأربعة على بعير وعشرة على بعير وتحشر بقيتهم النار . تقيل معهم حيث قالوا وتبيت معهم حيث باتو وتصبح معهم حيث أصبحوا وتمسي معهم حيث يمسوا . متفق عليه . ( متفق عليه )

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " حشر میں لوگوں کو تین قسموں میں جمع کیا جائے گا ایک قسم کے لوگ تو وہ ہوں گے جو بہشت کے خواشمند ہیں ، دوسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو دوزخ سے ڈرنے والے ہیں ، اور ان دونوں قسموں میں سے جو لوگ سواری پر ہوں گے ان کی صورت یہ ہوگی کہ ) دو ایک اونٹ پر سوار ہوں گے ٠ یعنی جس شخص کا مرتبہ جتنا زیادہ بلند ہوگا وہ اتنے ہی کم آدمیوں کے ساتھ سواری پر ہوگا اور نہایت آرام وکشادگی کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوگا اور جس کا مرتبہ جتنا ادنی ہوگا وہ اتنے ہی زیادہ آدمیوں کے ساتھ سواری پر ہوگا اور تنگی کے ساتھ بیٹھا ہوگا ) اور تیسری قسم باقی تمام لوگوں پر مشتمل ہوگی جن کو آگ جمع کرے گی اور وہ آگ ہر وقت ان لوگوں کے ساتھ رہے گی اور کسی وقت بھی ان سے الگ نہیں ہوگی یہاں تک کہ ، جہاں وہ لوگ قیلولہ کریں گے ( یعنی استراحت کے لئے رکیں گے ، آگ بھی وہیں قیلولہ کرے گی ، جہاں وہ لوگ رات گزرایں گے وہیں ان کے ساتھ ہی رات گزارے گی ، جہاں وہ لوگ صبح کریں گے وہیں آگ بھی ان کے ساتھ صبح کرے گی اور جہاں وہ لوگ شام کریں کے وہیں آگ بھی ان کے ساتھ شام کرے گی ۔ "
( بخاری ومسلم)

تشریح :
ملا علی قاری کے مطابق " تیں قسموں " میں سے ایک یعنی پہلی قسم کے لوگ تو سوار ہوں گے اور باقی دونوں قسموں کے لوگ پیدل اور منہ کے بل چلنے والے ہوں گے جیسا کہ آگے دوسری فصل میں آنے والی حدیث سے واضح ہوگا ! لیکن بعض شارحین نے کہا ہے کہ پہلی دونوں قسموں کے لوگ سواریوں پر ہوں گے اور باقی تمام لوگ پیدل چلتے ہوئے آئیں گے ، نیز انہوں نے کہا ہے کہ اونٹ سواریوں کی مذکورہ تعدادوں کا ذکر دراصل ان دونوں قسموں کے لوگ کے فرنی مراتب کی تفصیل کو بطور کنایہ وتمثیل بیان کرنے کے لئے ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ عالی مرتبہ ہوگا وہ اتنی ہی زیادہ راحت وسہولت اور سرعت وسبقت کے ساتھ میدان حشر میں پہنچے گا ۔
پہلی دونوں قسموں کا تعلق اہل ایمان سے ہے جن میں سے ایک تو وہ لوگ ہوں گے جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے امیدوار رہتے ہیں اور اس نے اپنے نیک بندوں کے لئے جنت اور وہاں کی نعمتوں کا جو وعدہ کیا ہے اس کا اشتیاق ان پر غالب رہتا ہے اور یہ وہ بندگان خاص ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اس کے اشتیاق میں کی جانے والی طاعت وعبادت اس طاعت وعبادت سے افضل ہے جو اللہ تعالیٰ کے ڈر اور خوف سے کی جائے ۔
" چار ایک اونٹ پر اور دس ایک اونٹ پر ہوں گے ۔ " چار اور دس کے درمیان کے دوسرے اعداد کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ ان کو ذکر کردہ اعداد پر قیاس کر کے مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے ! اسی طرح " ایک اونٹ پر ایک آدمی کا سوار ہونا " ذکر نہیں کیا گیا ہے جب کہ یقینی طور پر محشر میں آنے والوں میں ایسے افراد بھی ہوں گے جو اپنے اپنے اونٹ پر تنہا ہوں گے اور ان کی سواری میں ان کا کوئی شریک نہیں ہوگا ! تو اصل بات یہ ہے کہ وہ انبیاء اور رسولوں کا مرتبہ ہے اور یہاں انبیاء اور رسولوں کے حشرکا نہیں بلکہ " لوگوں " کے حشر کا ذکر کرنا مقصود ہے ! ایک بات یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ ایک ایک اونٹ پر دو اور دو سے زائد لوگوں کے سوار ہونے کی دونوں صورتیں محتمل ہو سکتی ہیں یا تو یہ ہوگا کہ ایک اونٹ جتنے لوگوں کی سواری کے لئے متعین ہوگا وہ سب لوگ اس پر ایک ساتھ بیٹھیں گے ، اور یا یہ ہوگا کہ تنادب ( باری متعین کرنے ) کے طور پر بیٹھیں گے ، کہ ہر شخص باری باری سے سوار ہوتا رہے گا ۔
اب آخر میں یہ بات جان لیجئے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ یہاں حدیث میں لوگوں کو محشر میں جمع کئے جانے کا جو ذکر ہے اس کا تعلق کس وقت سے ہے ؟ بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ اس حشر کا ذکر ہے جو قیامت کے دن آخرت میں بڑا ہوگا اور ہر شخص کو دوبارہ زندہ کرکے محشر میں لایا جائے گا ، جب کہ بعض دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ یہ آخرت کے حشر کا ذکر نہیں ہے بلکہ وہ " حشر " مراد ہے جو قیامت کے قریب واقع ہوگا کہ لوگوں کو تمام علاقوں سے اکٹھا کر کے ملک شام کے علاقہ میں ایک جگہ کہ جس کو " محشر" ہی سے تعبیر کیا گیا ہے جمع کیا جائے گا، اور جس کو قیامت کی علامت میں سے کہا گیا ہے ، ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ آخرت میں جو حشر ہوگا اس میں تمام لوگ پاپیادہ ہوں گے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ آخرت میں کئی حشر ہوں گے ایک تو قبر سے نکلتے وقت اور تمام لوگوں کے دوبارہ زندہ کئے جانے کے فورا بعد ، اور دوسرا حشر اس کے بعد ہوگا ! اس میں بعضوں کو سواریاں ملیں گی اور بعض پیدل اور بعض منہ کے بل چل کر آئیں گے ! بہر حال زیادہ صحیح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کا حشر مراد ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں