مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حشر کا بیان ۔ حدیث 108

میدان حشر میں ہر شخص ننگے بدن ، ننگے پاؤں اور غیر مختون آئے گا

راوی:

وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إنكم محشورون حفاة عراة غرلا ثم قرأ ( كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين )
وأول من يكسى يوم القيامة إبراهيم وإن ناسا من أصحابي يؤخذ بهم ذات الشمال فأقول أصيحابي أصيحابي فيقول إنهم لن يزالوا مرتدين على أعقابهم مذ فارقتهم . فأقول كما قال العبد الصالح ( وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم )
إلى قوله ( العزيز الحكيم )
. متفق عليه . ( متفق عليه )

" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تمہیں ( قیامت کے دن ) اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ تم ننگے پاؤں ننگے بدن اور بے ختنہ ہوگے " اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطور دلیل واستشہاد ) یہ آیت پڑھی ( كَمَا بَدَاْنَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُه وَعْدًا عَلَيْنَا اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ ) 21۔ الانبیاء : 104) یعنی جس طرح ہم نے ان کو ابتداء پیدائش میں (ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بے ختنہ ماں کے پیٹ سے ) پیدا کیا تھا اسی طرح ان کو دوبارہ (قیامت کے دن پیدا کریں گے یعنی قبروں سے اٹھائیں گے یہ وعدہ ( کہ ہم ان کو دبارہ پیدا کریں گے ) ہم پر لازم ہے اور یقینا ہم ( نے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا ) کرنے والے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن ان لوگوں میں سب سے پہلے جس شخص کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں (پھر فرمایا) اور (اس وقت جب کہ لوگوں کو میدان حشر سے جنت اور دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا ، میں دیکھوں گا کہ ) میرے کچھ صحابہ کو پکڑ کر بائیں ہاتھ کی طرف ( یعنی دوزخ کی طرف ) لے جایا جارہا ہے ، میں یہ دیکھ کر بطریق حیرت واستعجاب اور ان کو نجات دلانے کے لئے کہونگا کہ یہ میرے صحابی ہیں یہ میرے صحابی ہیں (ان کو کہاں لے جاتے ہو ؟ ) خداوند تعالیٰ فرمائے گا ۔ (بیشک یہ تمہارے صحابی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ) جب سے تم ان سے جدا ہوئے ، یہ برابر دین سے برگشتہ اور پھرے رہے (اس لئے ان کو دوزخ میں بھیجا جا رہا ہے ) میں ( یہ سن کر ) وہی کہوں گا جو بندہ صالح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ وکنت علیہم شہیدا ما دمت فیہم ۔ العزیز الحکیم تک یعنی جب تک میں ان کے درمیان رہا ، میں ان کے احوال سے واقف رہا الخ ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
" اور بے ختنہ ہوں گے " میں اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن جب مردے اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو ان کے جسم وبدن کے تمام اجزاء یک جا ہو کر مل جائیں گے اور پورا جسم اسی طرح کا ہو جائے گا جیسا کہ اس دنیا میں تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ ختنہ کی وہ کھال جو کاٹ کر پھینک دی جاتی ہے اور جو اس دنیا میں ضائع کر دیئے جانے کے قابل ہے جب وہ قیامت کے دن اپنی جگہ (یعنی ختنہ کے مقام پر ) واپس آکر جسم کا حصہ بن جائے گی تو دوسرے اجزاء جیسے بال اور ناخن وغیرہ بطریق روئی پیدا ہوں گے اور اپنی اپنی جگہ لگ جائیں گے ! پس یہ حقیقت نہ صرف یہ کہ حق تعالیٰ کے کمال علم اور کائنات کے ایک ایک جزوکل پر اس کے محیط ہونے کی دلیل ہے بلکہ اشیاء ممکنات کے تعلق سے اس کی قدرت کاملہ کی لامتناہی وسعتوں کی بھی علامت ہے ۔
سب سے پہلے جس شخص کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں " حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ فضیلت محض اس لئے حاصل ہوگی وہ ان لوگوں میں سب سے پہلے شخص ہیں جو فقراء اور ضروت مندوں کو کپڑے پہناتے ہیں اور ان کی ستر پوشی کرتے ہیں یا یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ سب سے پہلے شخص ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے لباس کیا گیا تھا جب کہ انہیں نمرود کی آگ میں ڈالا گیا تھا بس ان کی یہ مخصوص نوعیت کی فضیلت ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی آفضیلت کو ثابت نہیں کرتی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سب سے پہلے لباس پہنایا جانا ان کے اعزاز واکرام کے طور پر ہوگا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی اور دینی باپ ہیں علاوہ ازیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو اولیت حاصل ہوگی وہ حقیقی ہے یا اضافی ؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ اولیت حقیقی نہیں ہے بلکہ اضافی ہے یعنی ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور تمام لوگوں میں سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا ! اس کی تائید اسی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جن کپڑوں میں دفن کیا گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن انہیں کپڑوں میں اٹھ کر ( میدان حشر میں ) آئیں گے نیزجامع صغیر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترمذی کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
انا اول من تنشق عنہ الارض فا کسی حلۃ من حلل الجنۃ ثم اقوم عن یمین العرش لیس احد من الخلائق یقوم ذلک المقام غیری ۔
" ( قیامت کے دن ) سب سے پہلے میں زمین سے پھٹ کر اٹھونگا اور جنت کا لباس پہنوں گا اور پھر عرش کے دائیں طرف کھڑا ہوں گا اور اس جگہ مخلوقات میں سے میرے علاوہ کسی اور کو کھڑا ہونا نصیب نہیں ہوگا ۔ "
" میں وہی کہوں گا جو بندہ صالح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا الخ یعنی جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن اپنی قوم کی گمراہی اور بدعقیدگی وبد عملی سے اپنی برأت کا اظہار کریں گے اور اپنی گمراہ قوم کے معاملہ کو حق تعالیٰ کے عدل وانصاف پر چھوڑ دیں گے اسی طرح میں بھی یہی کہوں گا کہ پروردگار !میری امت کے یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں میری موجودگی کے درمیان ایمان وعمل کی سیدہی راہ پر گامزن تھے اور میں ان کا نگہبان وذمہ دار تھا ۔ لیکن جب میں بھی دنیا سے اٹھ گیا تو انہوں نے اپنے نفس اور شیطان کے فریب میں مبتلا ہو کر گمراہی کو اختیار کر لیا، اب ان کا معاملہ تیرا اوپر موقوف ہے تیری عادل ومنصف بار گاہ ان کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے وہ سراسر عادلانہ اور منصفانہ ہوگا ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بات کو واضح کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق سے قرآن کریم کی جو آیت پڑھی وہ پوری یوں ہے ( وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ واَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ ١١٧ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١١٨ ) 5۔ المائدہ : 108-117) یعنی (قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ نصاری کو سنانے اور ان کو شرمندہ کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمائے گا کہ کیا تم نے اپنی قوم کو عقیدہ تثلیث یعنی تین اللہ ماننے کی تلقین وتبلیغ کی تھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی برأت کا اظہار کریں گے اور کہیں گے کہ میں نے تو ان کو صرف تیری بندگی کرنے کی تلقین وتبلیغ کی تھی اور ) جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا ان پر مطلع رہا ( اور ان کی نگہبانی کرتا رہا کہ یہ لوگ صحیح عقیدہ عمل کی روشنی سے دور نہ جا پڑیں ) لیکن جب آپ نے مجھے ( اس دنیا ) سے اٹھا لیا ( اور ان کے اوپر سے میری نگہبانی ختم ہوگی تو ) پھر صرف آپ ان کے احوال پر مطلع رہے اور آپ ہر چیز کی پوری واقفیت رکھتے ہیں اب اگر ( ان کی بدعقیدگی وبد عملی کے لئے ) آپ ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر ان کو معاف فرما دیں تو بیشک زبردست حکمت والے ہیں ۔
واضح رہے کہ یہاں حدیث میں " صحابہ " سے مراد وہ صحابہ نہیں ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ سے نسبت حاصل رہی اور دن کو حقیقت میں " صحابہ " کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے بارے میں یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان میں سے کوئی بھی صحابی مرتد نہیں ہوا اور نہ کسی نے عقیدہ وعمل کی کوئی ایسی گمراہی اختیار کی جس کی بنا پر انہیں دوزخی کہا جا سکے لہٰذا " صحابہ کرام" سے مراد وہ اجڈ دیہاتی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشرف باسلام ہوگئے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب اور اسود وغیر کے اتباع کرنے کے سبب مرتد ہوگئے تھے ۔

یہ حدیث شیئر کریں