مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حشر کا بیان ۔ حدیث 111

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا حشر

راوی:

وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال يلقى إبراهيم أباه آزر يوم القيامة وعلى وجه آزر قترة وغبرة فيقول له إبراهيم ألم أقل لك لا تعصني ؟ فيقول له أبوه فاليوم لا أعصيك . فيقول إبراهيم يا رب إنك وعدتني ألا تخزني يوم يبعثون فأي خزي أخزى من أبي الأبعد فيقول الله تعالى إني حرمت الجنة على الكافرين ثم يقال لإبراهيم ما تحت رجليك ؟ فينظر فإذا هو بذيخ متلطخ فيؤخذ بقوائمه فيلقى في النار . رواه البخاري . ( متفق عليه )

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آذر سے اس حال میں ملیں گے کہ آذر کا چہرہ ( غم وفکر کے سبب ) سیاہ ہوگا اور غبار آلود ہوگا حضرت ابراہیم علیہ السلام ( یہ دیکھ کر حسرت وافسوس کے ساتھ ) کہیں گے کہ کیا (دنیا میں ) تم سے یہ نہیں کہا کرتا تھا کہ ( میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بتاتا اور تعلیم دیتا ہوں اس میں میری نافرمانی نہ کیا کر ؟ ان کا باپ آذر ان سے کہے گا کہ میں آج کے دن تمہاری نافرمانی نہیں کرونگا ( خدارا میری شفاعت کرو اور مجھے نجات دلاؤ ) حضرت ابراہیم علیہ السلام ( باپ کی یہ بات سن کر ) عرض رسا ہوں گے کہ میرے پروردگار ! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اس دن جب لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے ) اٹھایا جائے گا ( میدان حشر میں ) تو مجھ کو ذلیل ورسوا نہ کرے گا پس میرے باپ کی رسوائی وذلت سے بڑی ذلت ورسوائی میرے لئے اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ تیری رحمت سے اسقدر دور رہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ابراہیم آج کے دن تمہارے باپ کے حق میں مغفرت ونجات کی تمہاری درخواست منظور نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ کافر ہے اور ( حقیقت یہ ہے کہ میں نے جنت کو کافروں کے اوپر حرام کر دیا ہے " پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا جائے گا کہ نیچے دیکھو تمہارے پیروں میں کیا چیز ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام ( یہ سن کر ) اپنے پیروں کی طرف نگاہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ ( ان کا باپ ) آذر کفتار یعنی بجو کی شکل میں مٹی اور گوبر میں لتھڑا ہوا پڑا ہے پھر اس ( آذر ) کے پاؤں پکڑ کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا ۔ " (بخاری)

تشریح :
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ آذر کی صورت کو بجو جیسے حقیر جانور کی شکل وصورت میں اس لئے بدل دیا جائے گا تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل سے محبت پدری جاتی رہے اور وہ اس سے علیحدہ ہو جائیں یا اس لئے کہ ان کی سبکی نہ ہو کہ ان کا باپ دوزخ میں ڈالا گیا ۔
علماء نے لکھا ہے کہ اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا ہی میں اپنے باپ سے بیزار ہوگئے تھے اور اس سے اپنی برأت کا اظہار کر چکے تھے لیکن جب قیامت کے دن میدان حشر میں اس کو دیکھیں گے تو بے اختیار محبت پدری ان کے دامن گیر ہو جائے گی اور وہ اس کے لئے مغفرت ونجات کی خواہش کریں گے کہ شاید ان کی درخواست وشفاعت قبول ہو جائے مگر جب ان کی دراخوست وشفاعت قبول نہیں ہوگی اور وہ اپنے باپ کو ایک حقیر شکل وصورت میں بدلا ہوا دیکھیں گے تو نا امید ہوجائیں گے اور اس سے ہمیشہ کے لئے اپنی برأت وبیزاری ظاہر کریں گے اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یقین نہیں تھا کہ ان کا باپ آذر کفر کی حالت میں مرا ہے ان کا گمان تھا کہ ممکن ہے وہ پوشیدہ طور پر ایمان لے آیا ہو اور مجھے اس کی اطلاع نہ کی ہو اور شاید وہ قیامت کے دن اپنے اسی گمان کی بناء پر اس کے حق میں شفاعت کریں گے البتہ چونکہ ظاہری طور پر وہ کفر ہی کی حالت میں تھا اس لئے انہوں نے دنیا میں ظاہری احوال کا اعتبار کرتے ہوئے اس سے اپنی برأت وبیزاری کا اظہار کیا اور پھر جب قیامت میں اس کا کفر کی حالت میں مرنا یقین کے ساتھ معلوم ہو جائے گا تو اپنے باپ سے ان کی وہ بیزاری وبرات ( جو انہوں نے ظاہر کی تھی ) ہمیشہ کے لئے ہو جائے گی ۔

یہ حدیث شیئر کریں