مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حساب قصاص اور میزان کا بیان ۔ حدیث 125

قیامت کے دن مؤمن پر رحمت خداوندی

راوی:

وعن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله يدني المؤمن فيضع على كنفه ويستره فيقول أتعرف ذنب كذا ؟ أتعرف ذنب كذا ؟ فيقول نعم يا رب حتى قرره ذنوبه ورأى نفسه أنه قد هلك . قال سترتها عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم فيعطى كتاب حسناته وأما الكفار والمنافقون فينادى بهم على رؤوس الخلائق ( هؤلاء الذين كذبوا على ربهم ألا لعنة الله على الظالمين )
. متفق عليه .

" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قیامت کے دن ) اللہ تعالیٰ مؤمن کو اپنے ( فضل وکرم اور اپنی رحمت کے ) قریب کرے گا اور ( پھر ) اس کو اپنی حفاظت اور اپنی عنایت کے سائے میں چھپائے گا تاکہ وہ اہل محشر پر اپنے گناہوں اور اپنی بداعمالیوں کے کھل جانے کی وجہ سے شرمندہ اور رسوا نہ ہو ) پھر اللہ تعالیٰ اس ( مؤمن ) سے پوچھے گا کہ کیا تو اس گناہ کو جانتا ہے ، کیا تو اس گناہ کو جانتا ہے ، یعنی کیا تجھے یاد اور اعتراف ہے کہ تو نے دنیا میں فلاں فلاں گناہ کئے تھے ؟ وہ ( مؤمن ) عرض کرے گا کہ ہاں اے پروردگار ( مجھے اپنا وہ گناہ یاد ہے اور اپنی بدعملی کا اعتراف کرتا ہوں غرضیکہ اللہ تعالیٰ اس ( مؤمن ) سے اس کے تمام گناہوں کا اعتراف واقرار کرائے گا اور وہ ( مؤمن ) اپنے دل میں کہتا ہوگا کہ ( ان گناہوں کی پاداش ) میں اب ہلاک ہوا ، اب تباہ ہوا ! لیکن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ " میں نے دنیا میں تیرے ان گناہوں اور ان عیوب کی پردہ پوشی کی اور آج بھی میں تیرے ان گناہوں کو بخش دوں گا " پس اس ( مؤمن ) کو اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دے دیدیا جائے گا ( اور برائیوں کا اعمالنامہ کالعدم کر دیا جائے گا ) اور جہاں تک کافروں اور منافق لوگوں کا تعلق ہے تو ان کو تمام مخلوق کے سامنے طلب کیا جائے گا اور پکار کر کہا جائے کا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ( کفر وشرک کے ذریعہ ) اپنے رب پر بہتان باندھا تھا ، جان لو ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ۔" ( بخاری ومسلم )

تشریح :
" مؤمن " کا لفظ یا تو بطور نکرہ ہے کہ غیر متعین طور پر کسی بھی مؤمن کے بارے میں یہ بشارت دی گئی ہے ، اور یہ بھی بعید نہیں ہے " مؤمن " سے جنس مؤمن مراد ہو یعنی تمام مؤمنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم کا یہی معاملہ فرمائے گا ! اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہ بشارت ان مؤمن بندوں کے حق میں ہے جو اس دنیا میں کسی کی غیبت نہیں کرتے ، کسی پر عیب نہیں لگاتے کسی کو ذلیل ورسوا نہیں کرتے ، کسی مسلمان کی فضحیت سے خوش نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور لوگوں میں کسی کی آبروریزی کا باعث نہیں بنتے ! پس اللہ تعالیٰ ان کے اوصاف کی جزا کے طور پر قیامت کے دن ان کی پردہ پوشی فرمائے گا اور ان کو اپنی حفاظت ورحمت کے سایہ میں چھپائے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں