مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حساب قصاص اور میزان کا بیان ۔ حدیث 127

قیامت کے دن امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت نوح کی گواہ بنے گی

راوی:

وعن أبي سعيد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاء بنوح يوم القيامة فيقال له هل بلغت ؟ فيقول نعم يا رب فتسأل أمته هل بلغكم ؟ فيقولون ما جاءنا من نذير . فيقال من شهودك ؟ فيقول محمد وأمته . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيجاء بكم فتشهدون على أنه قد بلغ ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم ( وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا )
. رواه البخاري .

" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " قیامت کے دن ( میدان حشر میں ) حضرت نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے ( اپنی امت تک اللہ تعالیٰ کے احکام وہدایت ) پہنچائے تھے ؟ وہ عرض کریں گے کہ بیشک اے میرے پروردگار میں نے تیرے احکام دین وہدایت اپنی امت کے لوگوں تک پہنچائے تھے ) پھر حضرت نوح علیہ السلام کی امت ( کے ان لوگوں سے کہ جن تک حضرت نوح نے اللہ تعالیٰ کے احکام دین وہدایت پہنچائے تھے ) پوچھا جائے گا کہ کیا ( نوح علیہ السلام نے ) تم تک ہمارے احکام پہنچائے تھے ؟ وہ لوگ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھی ڈرانے والا ( خواہ وہ نوح ہوں یا اور کوئی نبی ) نہیں آیا تھا اور پھر حضرت نوح علیہ السلام سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے گواہ کون ہیں ؟ یعنی اگرچہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہوگا کہ نوح نے جو کچھ کہا ہے بالکل درست کہا ہے لیکن ان کی منکر امت کو قائل کرنے کے لئے حضرت نوح علیہ السلام سے ان کے اس دعوے پر گواہ طلب کرے گا کہ انہوں نے منصب تبلیغ ورسالت کی ذمہ داریوں کو پورا کیا تھا ) چنانچہ حضرت نوح کہیں گے کہ میرے گواہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے لوگ ہیں " اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( صحابہ سے ) فرمایا کہ تب تمہیں پیش کیا جائے گا اور تم یہ گواہی دو گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے امت کو احکام الٰہی پہنچائے تھے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس صورت واقعہ کی تصدیق وتثویب کے لئے یہ آیت پڑھی ( جس میں حق تعالیٰ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے ) کہ ۔ "
وک(وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَا ءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُ وْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ) 2۔ البقرۃ : 143)
" اور اسی لئے ہم نے ( اے مسلمانوں ) تمہیں نیک وعادل اور افضل امت بنایا ہے تاکہ تم ان لوگوں گے بارے میں ( کہ جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور کفر وشرک پر قائم رہے ہیں ) گواہی دو ، اور تمہارے گواہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے ۔ "
اس روایت کو بخاری نے نقل کیا ہے ۔

تشریح :
حضرت نوح علیہ السلام کا یہ کہنا کہ بیشک اے پروردگار ! میں نے تیرے احکام اپنی امت کے لوگوں تک پہنچائے تھے ، قرآن کریم کی اس آیت کے منافی نہیں ہے جس میں یوں ہے کہ ۔
یوم ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَا اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ) 5۔ المائدہ : 109)" اس دن ( میدان حشر میں ) اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور پھر ان سے پوچھے گا کہ تمہیں ( تمہاری مت کی طرف سے تمہاری دعوت وتبلیغ دین کا ) کیا جواب ملا تو وہ کہیں گے کہ ہمیں علم نہیں ، بلا شبہ پوشیدہ باتوں کو آپ ہی بہت زیادہ جاننے والے ہیں ۔ "
کیونکہ اس آیت کی مراد تو یہ کہ " اجابت " کا سوال ہوگا جس کے بارے میں وہ رسول اپنی لا علمی ظاہر کریں گے، جب کہ یہاں حدیث میں حضرت نوح علیہ السلام سے جس سوال کا ذکر ہے وہ " دعوت وتبلیغ " کے بارے میں ہوگا اور ظاہر ہے کہ " اجابت " اور " دعوت وتبلیغ " دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔
حضرت نوح علیہ السلام یہ کہیں گے کہ میرے گواہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے لوگ ہیں " یعنی اصل گواہ تو امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگ ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کے دعوے کی گواہی وہی دیں گے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مز کی ہوں گے ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اصل گواہ یعنی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں سے پہلے مز کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کے اظہار کے لئے ہوگا اور ویسے یہ بھی بعید نہیں کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی نوح علیہ السلام کی گواہی دیں کیونکہ وہ وقت اور جگہ یہ ایسی ہوگی جہاں زیادہ سے زیادہ مدد ونصر پہنچانے کی ضرورت ہوگی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( صحابہ سے ) فرمایا کہ تب تمہیں پیش کیا جائے گا " ان الفاظ کا اسلوب بیان بتاتا ہے کہ اس وقت جب کہ دربار الہٰی میں لوگوں کی سب سے بڑی پیشی ہوگی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حاضر وناظر ہوں گے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا جائے گا اور پھر ان کے گواہوں یعنی امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں کو لایا جائے گا ۔
اور تم یہ گواہی دو گے کہ الخ " یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے کہنے کے مطابق تم ان کی گواہی دوگے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مز کی ہوں گے یا یہ کہ تم گواہی دو گے ، اور تمہارے ساتھ نبی بھی گواہی دیں گے ۔
اس آیت کریمہ (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا) 2۔ البقرۃ : 143) میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ مسلمان قیامت کے دن گزشتہ امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے اور ان ( مسلمانوں ) کی گواہی ان کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم دیں گے ، تو ان گزشتہ لوگوں کے بارے میں مسلمانوں کی گواہی کی مثال تو یہی ہے کہ وہ ( مسلمان) حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی امت کے لوگوں تک اللہ کے احکام پہنچائے تھے اور ان ( مسلمانوں کے بارے میں ان کے پیغمبر کی طرف سے گواہی کی صورت یہ ہوگی کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب قیامت کے دن گزشتہ انبیاء اور رسولوں کی امتیں انکار کرتے ہوئے کہیں گی کہ ہم تک کسی نبی نے کچھ نہیں پہنچایا اور ہمیں اللہ کے احکام نہیں بتائے تو وہ رسول اور انبیاء امت محمدی کے لوگوں کو اپنا گواہ بنائیں گے اور جب مسلمان ان کی گواہی دیں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ ( تم لوگ تو ان امتوں کے بعد دنیا میں آئے تھے ) تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ ان انبیاء نے اپنی امت کے لوگوں کو اللہ کے احکام پہنچائے تھے اور تم یہ گواہی کس بنا پر دے رہے ہو ؟ تو وہ ( مسلمان ) جواب دیں گے کہ اس سلسلہ میں ہم نے کتاب اللہ کو ناطق پایا تھا ( یعنی قرآن مجید نے ہمیں اس بارے میں بالک سچی خبر دی تھی چنانچہ اسی کی بنا پر ہم یہ گواہی دے رہے ہیں ! اس کے بعد ان رسولوں کی امتوں کے لوگ مسلمانوں کی صداقت وعدالت یعنی ان کے معتبر ہونے کی اور ان کی سچائی کے بارے میں جرح کریں گے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کا سچا اور معتبر ہونا ثابت کریں گے اور گواہی دینے کے یہی معنی ہیں اور اسی اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا گواہ کہا گیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سچا اور گزشتہ امتوں کے بارے میں ان کی گواہی کو معتبر ثابت کیا تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی گواہی دی ! اور اسی لحاظ سے حضرت نوح علیہ السلام یہ کہیں گے کہ میرے گواہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے لوگ ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں