مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حساب قصاص اور میزان کا بیان ۔ حدیث 128

قیامت کے دن جسم کے اعضاء شہادت دینگے

راوی:

وعن أنس قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فضحك فقال هل تدرون مما أضحك ؟ . قال قلنا الله ورسوله أعلم . قال من مخاطبة العبد ربه يقول يا رب ألم تجرني من الظلم ؟ قال يقول بلى . قال فيقول فإني لا أجيز على نفسي إلا شاهدا مني . قال فيقول كفى بنفسك اليوم عليك شهيدا وبالكرام الكاتبين شهودا . قال فيختم على فيه فيقال لأركانه انطقي . قال فتنطق بأعماله ثم يخلى بينه وبين الكلام . قال فيقول بعدا لكن وسحقا فعنكن كنت أناضل . رواه مسلم .

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یکایک ہنسنے لگے اور پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو میں کیوں ، ہنس رہا ہوں ؟ حضرت انس کہتے ہیں کہ ہم نے کہا " اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں ( قیامت کے دن ) بندہ اور اللہ کے درمیان منہ در منہ گفتگو ہونے کا خیال کرکے ) ہنس رہا ہوں ! ( اس دن ) بندہ کہے گا کہ اے پروردگار کیا تو نے مجھ کو ظلم سے پناہ نہیں دی ہے ؟ ( یعنی کیا تو نے نہیں فرمایا کہ میں اپنے بندوں پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( یہ سن کر ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہاں تجھ کو ( میں نے پناہ دی ہے اور میں یقینا بندوں پر ظلم نہیں کرتا ) تب بندہ کہے گا کہ اگر تو نے مجھ کو ظلم سے پناہ دی ہے تو ) میں اپنے متعلق اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتا کہ میرے بارے میں گواہی دینے والا مجھ ہی میں سے ہو " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بندے کی یہ بات سن کر ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ " ( مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ) آج کے دن تیرے بارے میں خود تیری ذات کی گواہی دیں گے " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پھر بندے کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی ( یعنی اس کی قوت گویائی کو معطل کر دیا جائے گا ) اور اس کے بعد اس کے تمام اعضاء وجسم کو حکم دیا جائے گا کہ بولو، چنانچہ اس کے جسم کے اعضاء اس کے (ان) اعمال کو بیان کریں گے جو اس نے ان اعظاء کے ذریعہ کئے تھے پھر اس بندے اور اس کی گویائی کے درمیان سے ( پردہ ) اٹھا دیا جائے گا ( یعنی اس کے منہ کو جو مہر لگائی گئی تھی اس کو توڑ دیا جائے گا اور اس کی قوت گویائی بحال ہو جائے گی جس سے وہ پہلے کی طرح باتیں کرنے لگے گا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بندہ ( یہ صورت حال دیکھ کر اپنے اعضاء جسم سے ) کہے گا کہ دور ہو بدبختو اور ہلاک ہو ، میں تو تمہاری ہی طرف سے اور تمہاری ہی نجات کے لئے لڑ جھگڑ رہا تھا ۔ " ( مسلم )

تشریح :
" میرے بارے میں گواہی دینے والا مجھ ہی میں سے ہو " یعنی مجھے یہ گوارہ نہیں ہے کہ میرے اعمال وکردار اور میری دنیاوی زندگی کے بارے میں گواہی دینے والا کوئی دوسرا ہو ، میں تو صرف اس گواہ کو تسلیم کروں گا جو میری ذات کے اندر سے پیدا ہوگو یا بندہ تو یہ خیال کرے گا کہ میری ذات کے اندر سے گواہی دینے والا کون ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی ذات خود اپنے کو ضرر ونقصان پہنچانے کے لئے گواہی نہیں دیا کرتی ، لیکن اس کو یہ خیال نہیں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر بھی پوری طرح سے قادر ہے کہ وہ اس بندے کی ذات میں سے ایسا گواہ پیدا کردے جو اس کے خلاف گواہی دے اور اس کو اللہ کے حکم کے خلاف انکار کی مجال اور دم مارنے کی گنجائش نہ ہو ! پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کا سبب یہی تھا کہ حق تعالیٰ کے سامنے بندہ کا اس طرح کلام کرنا کہ خود اپنے جال میں پھنس جائے اس کی کس درجہ کی مضحکہ خیز حرکت ہوگی ۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ کے منہ کو مہر لگانا ان اعضاء جسم کا اعمال کے بارے میں گواہی دینا جن کے ذریعہ بندے نے وہ عمل کئے ہوں گے ، اور پھر اس بندے کا اپنی نادانی پر جھنجھلاہٹ کی وجہ سے اپنے ان اعضاء جسم کو برا بھلا کہنا اور ان کو بددعا دینا جیسے عجیب وغریب امور کا خیال کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے ۔
خود بندے کی درخواست اور خواہش کے مطابق خود اسی کے اعضاء جسم کو اس کے بارے میں گواہ بنانے کے بعد پھر نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بھی گواہ بنانا مقصود سے زائد بات ۔۔۔ ۔ اور اس کا سبب یہ ہوگا کہ اعضاء جسم جو گواہی دیں گے اس کی تصدیق وتوثیق ہو جائے اور بندے کو یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ یہ اعضاء جسم درست گواہی نہیں دے رہے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ صرف فرشتوں کو گواہ بنائے گا تو یہ بات اس قرارداد کے خلاف ہوگی جو اس کے اور بندے کے درمیان طے پائی گی حاصل یہ کہ اصل گواہ تو بندے کے اعضاء جسم ہی ہوں گے جن کو خود بندے کی غرض وخواہش کے مطابق گواہ بنایا جائے گا اور ان اعضاء جسم کی گواہی ثابت کرنے کے لئے نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بطور زائد گواہ پیش کیا جائے گا ، لہذا یہ اعتراض پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ بندے کی غرض وخواہش کو مان کر اس کی ذات کے اندر سے ، یعنی اسی کے اعضاء جسم کو گواہ بنائے گا تو فرشتوں کو گواہ بنانے کی کیا ضررت ہوگی ۔
دور ہٹو بدبختو اور ہلاک ہو الخ " یعنی جب وہ بندہ دیکھے گا کہ یہ میرے اعضاء جسم تو میرے ہی خلاف گواہی دے رہے ہیں ، ادھر ان اعضاء جسم کا اس کے خلاف گواہ بننا خود اس کی درخواست وخواہش کے مطابق ہوگا ، تو وہ اس صورت حال سے جھنجلا جائے گا اور اپنے اعضاء جسم کو برا بھلا کہنے لگے گا کہ کمبختو، میں تمہاری ہی طرف سے لڑجھگڑ رہا تھا تاکہ تمہیں اعمال بد کی سزا نہ بھگتنی پڑے ، لیکن اپنے خلاف خود تم ہی گواہی دے رہے ہو اور اپنے آپ کو عذاب وہلاکت میں ڈال رہے ہو یا یہ کہ میں دنیا میں تمہاری ہی وجہ سے بندوں سے لڑتا جھگڑتا تھا ، تمہیں نقصان وضرر سے بچانے کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچایا کرتا تھا ، تمہاری راحت اور تمہارے کام کی وجہ سے فلاں فلاں پر عمل کیا کرتا تھا ، ہر وقت تمہاری ہی حفاظت اور تمہاری ہی مدد میں لگا رہتا تھا ، اور تمہیں ہی اپنا دوست وغم خوار مانتا تھا مگر آخر کو تم ہی میرے دشمن اور میرے بدخواہ نکلے اور مجھے عذاب اللہ وندی کے حوالہ کئے جانے کا سبب بنے ! حدیث میں ان اعضاء جسم کا وہ جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے جو وہ آخر میں بندے کی یہ بات سن کر دیں گے ، لیکن قرآن کی ایک آیت میں ان کے اس جواب کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے ۔
(وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوْ ا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْ اَنْ طَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ) 41۔فصلت : 21) اور وہ اپنی جلدوں سے ( یعنی اپنے اعضاء جسم سے ) کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ تو وہ جلدیں کہیں گی کہ ہمیں اس اللہ نے بلایا ہے جس نے ہر ایک کو بلایا ہے ، اور اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

یہ حدیث شیئر کریں