مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حساب قصاص اور میزان کا بیان ۔ حدیث 129

قیامت کے دن دیدار الہٰی

راوی:

وعن أبي هريرة قال قالوا يا رسول الله هل نرى ربنا يوم القيامة ؟ قال فهل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة ؟ قالوا لا قال فهل تضارون في رؤيةالقمر ليلة البدر ليس في سحابة ؟ قالوا لا قال فوالذي نفسي بيده لا تضارون في رؤية ربكم إلا كما تضارون في رؤية أحدهما . قال فيلقى العبد فيقول أي فل ألم أكرمك وأسودك وأزوجك وأسخر لك الخيل والإبل وأذرك ترأس وتربع ؟ فيقول بلى قال أفظننت أنك ملاقي ؟ فيقول لا فيقول فإني قد أنساك كما نسيتني ثم يلقى الثاني فذكر مثله ثم يلقى الثالث فيقول له مثل ذلك فيقول يارب آمنت بك وبكتابك وبرسلك وصليت وصمت وتصدقت ويثني بخير مااستطاع فيقول ههنا إذا . ثم يقال الآن تبعث شاهدا عليك ويتفكر في نفسه من ذا الذي يشهد علي ؟ فيختم على فيه ويقال لفخذه انطقي فتنطق فخذه ولحمه وعظامه بعمله وذلك ليعذر من نفسه وذلك المنافق وذلك يسخط الله عليه .
رواه مسلم .
وذكر حديث أبي يدخل من أمتي الجنة في باب التوكل برواية ابن عباس

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کے ( ایک دن ) صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا قیامت کے دن ( اپنی آنکھوں سے ) اپنے اللہ کا دیدار کریں گے ؟ آپ نے فرمایا " کیا دوپہر کے وقت جب کہ ابر نہ ہو ، تو سورج کو دیکھنے میں کوئی شک رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " پس قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے جس طرح تم سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی شک وشبہ نہیں رکھتے اسی طرح ( قیامت کے دن ) اپنے پروردگار کو دیکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ایک بندے کو خطاب کرکے فرمائے گا کہ اے بندے ! کیا میں نے تجھے (جنس حیوان اور دیگر مخلوقات پر ) فضیلت وشرف نہیں بخشا تھا ، کیا میں نے تجھے تیری بیوی عطا نہیں کی تھی ( جو میں نے تیری ہی جنس اور تیری ہی نوع سے پیدا کی تھی اور پھر تیرے اور اس کے درمیان انس ومحبت اور پیار کا رشتہ قائم کیا تھا ) کیا میں نے تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ ( اور دیگر کار آمد جانوروں اور چیزوں ) کو تیرا مطیع نہیں بنایا تھا ۔ اور کیا میں نے تجھے یہ موقع نسیب نہیں کیا تھا کہ تو اپنی قوم کا سربراہ اور سردار ہو اور چوتھائی مال غنیمت حاصل کرے ؟ ( واضح رہے کہ یہ زمانہ جاہلیت میں بھی رواج تھا کہ کسی بھی قوم وقبیلہ کا سربراہ حاصل ہونے والے مال غنیمت میں سے اپنے لئے چوتھائی حصہ لیتا تھا اور باقی مال پوری قوم کے لئے چھوڑ دیتا تھا ) وہ بندہ ( یہ سن کر ) عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! بیشک ایسا ہی ہوا تھا ( یعنی تو نے اپنے جن انعامات کا ذکر فرمایا ہے وہ سب مجھے دنیا میں حاصل ہوئی تھیں ) " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اس کے بعد پروردگار فرمائے گا کہ کیا تجھے یہ بھی خیال تھا کہ ( ایک دن ) تو مجھ سے ملے گا ؟ بندہ عرض کرے گا نہیں ! ( مجھے یہ خیال نہیں رہا تھا اور میں ایسی غفلت میں پڑ گیا تھا کہ اس بات کو بھول ہی گیا ) پس پروردگار فرمائے گا کہ تو میں بھی تجھے فراموش کروں گا ( یعنی آج میں بھی تجھے اپنی رحمت سے دور کر دوں گا ) جیسا کہ تو نے دنیا میں میری اطاعت اور میری یاد کو فراموش کر دیا تھا " پھر پروردگار دوسرے بندے سے ملاقات اور خطاب فرمائے گا " اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ اور اس بندے کے درمیان اسی سوال وجواب کا ذکر کیا جو پہلے بندے کے سلسلے میں منقول ہوا پھر پروردگار تیسرے بندے سے ملاقات وخطاب فرمائے گا اور اس سے وہی فرمائے گا جو اس نے پہلے بندہ سے فرمایا تھا اور وہ ( تیسرا بندہ ) یہ جواب دے گا " میرے پروردگار ! میں تجھ پر تیری کتاب پر اور تیرے پیغمبروں پر ایمان لایا تھا میں نے نماز پڑھی روزے رکھے اور صدقہ دیا ( یعنی زکوۃ ادا کی )" اور اس طرح جس قدر ہو سکے گا وہ اپنی نیکیوں کے بارے میں تعریف وتوصیف بیان کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ ( اس کی یہ تمام باتیں سن کر ) فرمائے گا کہ تم یہیں ٹھیرو ہم ابھی تمہارے بارے میں گواہ پیدا کئے دیتے ہیں ( یعنی تو نے اپنی نیکیوں کے بارے میں جو دعوی کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کوشش کی ہے کہ تو نے ہماری نعمتوں کی شکر گزاری میں اپنی دنیاوی زندگی کو اعمال خیر سے معمور کر رکھا تھا تو ذرا ٹھہر جا ہم گواہوں کے ذریعہ ابھی بتائے دیتے ہیں کہ تو اپنے دعوے میں کہاں تک سچا ہے ) بندہ ( یہ سن کر ) اپنے دل میں سوچے گا کہ بھلا اس وقت میرے خلاف کون گواہی دے گا لیکن جبھی اس کے منہ کو مہر لگادی جائے گی اور اس کی ران سے کہا جائے گا کہ بول چنانچہ اس کی ران اس کا گوشت اور ہڈی (یعنی ران کے سب حصے اس کے ( ان ) اعمال کے بارے میں جو اس نے دنیا میں واقعۃ کئے ہونگے ) بیان دیں گے اور یہ سب کچھ ( یعنی مذکورہ سوال وجواب بندہ کے منہ کو مہر لگانا اور اس کے اعضاء کے ذریعہ گواہی دلوانا ) اس لئے ہوگا تاکہ بندہ کی بداعمالیاں ثابت ہو جائیں اور وہ کوئی عذر نہ کر سکے ( یا یہ معنی ہیں کہ یہ سب کچھ اس لئے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ خود صاحب عذر ہو یعنی اس بندے کو عذاب میں مبتلا کرنے کی ذمہ داری اسی پر ڈال سکے ) اور یہ تیسرا بندہ ( جو اپنی نیکیوں کے بارے میں دعوی کرے گا لیکن خود اس کے اعضاء جسم اس کے دعوے کی تردید کریں گے ) درحقیقت منافق ہوگا اور یہ وہ بندہ ہے جس سے حق تعالیٰ غصہ وناراض ہوگا ۔ " ( مسلم )
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت یدخل من امتی الجنۃ حضرت ابن عباس کی روایت سے توکل کے باب میں ذکر کی جا چکی ہے ۔

تشریح :
" اسی طرح تم اپنے پرودگار کو دیکھنے میں کوئی شک وشبہ نہیں کروگے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی تکلف نہیں ہوتا ، کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑتی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ، اسی طرح تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو بھی بلا تکلف دیکھو گے ! واضح رہے کہ لفظ تضارون ( جس کا آزاد ترجمہ " شک وشبہ کرنا " کیا گیا ہے ) ت کے پیش اور ر کی تشدید کے ساتھ منقول ہے اور ر کی تشدید کے بغیر بھی نقل کیا گیا ہے " اور یہ لفظ ر کی تشدید کے ساتھ ہو تو اس کی اصل " مضارت " ہوگی جس کے معنی ضرر ونقصان کے ہیں اور اگر یہ لفظ ر کی تشدید کے بغیر ہو تو پھر اس کی اصل " ضیر " ہوگی اور اس کے معنی بھی ضرر و نقصان کے ہیں پس لفظی ترجمہ کے اعتبار سے لا تضارون کے معنی یہ ہوں گے کہ پروردگار کے دیدار کے وقت تم آپس میں لڑائی جھگڑے ، دھکم پیل ، مخالفت وموافقت اور تصدیق وتکذیب کے ذریعہ ایک دوسرے کو نقصان وتکلیف نہیں پہنچاؤ گے کیونکہ اس کا دیدار اس طرح واضح وعام اور ہر ایک کے لئے عیاں ہوگا کہ ہر شخص بڑی آسانی اور اطمینان کے ساتھ اس کو دیکھے گا بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اس کے دیدار کے وقت تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے لئے پردہ اور رکاوٹ نہیں بنے گا اور مجمع البحار میں یہ لکھا ہے کہ تضارون کا لفظ مضارت سے ہے ) اور مضارت کے معنی کسی کے دیدار کے وقت اجتماع واژدہام کا ہونا ( اور اس کی وجہ سے ایک دوسرے کو تکلیف وپریشانی اٹھانا ) " مراد ہیں اسی طرح قاضی عیاض مالکی نے یہ کہا ہے کہ " مضارت " کے معنی مضایقت یعنی ایک دوسرے کو تنگ گیری میں مبتلا کرنا مراد ہیں اور یہ معنی اجتماع واژدہام کے قریب ہیں نیز انہوں نے کہا ہے کہ مضایقت یعنی آپس میں ایک دوسرے کو تنگ گیر ہونے کا اطلاق کسی ایسی چیز کو دیکھنے کے موقع پر ہوتا ہے جو بالکل مخصوص نوعیت اور خاص انداز سے کسی ایک محدود جگہ پر ہو اور مجمع وہجوم کی وجہ سے ہر شخص آسانی کے ساتھ اس کے ساتھ اس کو نہ دیکھ سکتا ہو پس اس صورت میں لا تضارون کا مطلب یہ ہوگا کہ تم پروردگار کے دیدار کے وقت ایک دوسرے سے ملے اور جڑے ہوئے اور تنگ گیری میں مبتلا نہیں ہوں گے جیسا کہ محدود جگہ پر مجمع وہجوم کے وقت کسی چیز کو دیکھنے کی صورت میں ہوتا ہے بلکہ جس طرح تم سب اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے اطمینان وفراغت کے ساتھ سورج اور چاند کو دیکھتے ہو اسی طرح قیامت کے دن تم سب اپنی اپنی جگہ پر بہ فراغت اپنے پروردگار کا دیدار کروگے ۔
ایک روایت میں یہ لفظ تضارون کے بجائے تضامون ہے یعنی ر کی جگہ م ہے ، پھر تضامون کا لفظ بھی دونوں طرح منقول ہے یعنی ت کے پیش اور م کی تشدید کے ساتھ بھی آیا ہے اور م کی تشدید کے بغیر بھی ، تشدید کی صورت میں یہ لفظ " ضم " سے مشتق ہوگا اور بغیر تشدید کی صورت میں " ضیم " سے !ضم " اجتماع واژدہام کے معنی میں ہے اور ضیم " ظلم وزیادتی کرنے کے معنی میں ہے ! لیکن دونوں صورتوں میں مفہوم وہی ہوگا " تضارون ) کے تحت بیان کیا گیا ہے ۔
" تو میں بھی تجھے فراموش کر دوں گا الخ " کا حاصل یہ ہے کہ جب میں نے تجھ کو دنیا میں اپنے ان انعامات سے نوازا اور تجھ پر اتنے بڑے بڑے احسانات کئے تو تیرا فرض تھا کہ تو میری اطاعت وعبادت اور میرے احکام کی اتباع وپیروی کے ذریعہ میرا شکر ادا کرتا اور میرے دیدار کا امیداوار رہتا تاکہ میں تجھے اور زیادہ انعام وجزا دیتا اور دنیا کی طرح آج کے دن بھی تجھے سر بلند وسرخ رو کرتا پس جب کہ تو نے دنیا میں میری ان نعمتوں اور میرے ان احسانات کے باوجود مجھے فراموش کر دیا تھا اور میری طرف سے غافل ہوگیا تھا تو اب میں بھی احسان اور اچھا سلوک نہ کرکے تیرے ساتھ وہی معاملہ کروں گا جو کسی غافل اور احسان فراموش شخص کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس طرح میں تجھے اپنی رحمت سے دور کر دوں گا واضح رہے کہ یہی مضمون اس آیت کریمہ میں بھی بیان کیا گیا ہے ۔
(قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى) 20۔طہ : 126) ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ایسا ہی ( چاہیے تھا ) تیرے پاس ( دنیا میں ) ہماری آیتیں آئیں تو نے ان کو بھلا دیا اسی طرح آج ( یہاں قیامت کے دن ہم تجھ کو بھلا دیں گے ۔
" چنانچہ اس کی ران ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈی الخ " کے بارے میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں ہاتھ ، پاؤں ، زبان اور کھال کا بولنا اور بندے کے اعمال کے سلسلے میں گواہی دینا مذکور ہے ، جب کہ یہاں " ران ، گوشت اور ہڈی کے بولنے اور گواہی دینے کا ذکر ہے ، تو زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث کے اس جملہ کا اصل مقصد بھی یہی بیان کرنا ہے کہ بندے کے تمام اعضاء جسم بولیں گے اور اس کے اعمال کے بارے میں گواہی دیں گے جن میں ہاتھ اور پاؤں وغیرہ بھی شامل ہیں جیسا کہ پیچھے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں گزرا ۔
اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کا مطلب یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے یدخل من امتی الخ " کی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے یہاں اس باب میں نقل کیا تھا لیکن صاحب مشکوۃ نے اس حدیث کو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے اور اس باب کی بجائے باب التوکل میں ذکر کیا ہے لیکن واضح رہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ان الفاظ میں منقول ہے یدخل الجنۃ من امتی سبعون الفا بغیر حساب ہو الذین لا یسترقون ولا یتطیرون وعلی ربہم یتوکلون ۔ پس صحیح بات تو یہ تھی کہ یہاں یدخل من امتی الجنۃ الخ " کے بجائے ) یوں کہا جاتا کہ یدخل الجنۃ امتی الخ !"

یہ حدیث شیئر کریں