مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حوض اور شفاعت کا بیان ۔ حدیث 140

حوض کوثر کے دونوں کناروں پر بڑے بڑے موتیوں کے قبے ہونگے

راوی:

عن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بينا أنا أسير في الجنة إذا أنا بنهر حافتاه الدر المجوف قلت ما هذا يا جبريل ؟ قال الكوثر الذي أعطاك ربك فإذا طينه مسك أذفر . رواه البخاري . ( متفق عليه )

" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " میں ( معراج کی رات میں ) جنت کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک میرا گزر ایک نہر پر ہو ! جس کے دونوں طرف موتیوں کے گنبد تھے میں نے پوچھا کہ جبرائیل علیہ السلام یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ حوض کوثر ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے پروردگار نے عطا کیا ہے ۔ پھر جو میں نے دیکھا تو اس کی مٹی مثل مشک تیز خوشبودار تھی۔ " ( بخاری )

تشریح :
" مجوف " کے معنی ہیں کھوکھلا ! مجوف موتی کے گنبدے سے مراد یہ ہے کہ حوض کوثر کے دونوں کناروں پر جو گنبد اور قبے ہیں وہ اینٹ پتھر اور چونے گارے جیسی چیزوں سے تعمیر شدہ نہیں ہیں بلکہ ہر گنبد دراصل ایک بہت بڑا موتی ہے جو اندر سے کھوکھلا ہے اور جس میں نشست ورہائش کی جملہ آسائشیں موجود ہیں " جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے عطا کیا ہے ۔ " کے ذریعہ آیت کریم انا اعطینک الکوثر کی طرف اشارہ ہے جس کی تفسیر میں بہت سے مفسروں نے کہا ہے کہ اس آیت کریمہ میں " کوثر " سے مراد " خیر کثیر یعنی بیشمار بھلائیاں اور نعمتوں کی کثرت " ہے جو پروردگار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہے ، اس میں نبوت ورسالت ، قرآن کریم اور علم وحکمت کی نعتیں بھی شامل ہیں اور امت کی کثرت اور وہ تمام مراتب عالیہ بھی شامل ہیں جن میں ایک بہت بڑی نعمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخرت میں مقام محمود ، لوائے ممدود اور مذکورہ حوض کا عطا کیا جانا ہے ۔ اس اعتبار سے اس بارہ میں کوئی منافات نہیں ہے کہ " کوثر " سے مراد " حوض کوثر " ہے یا " خیر کثیر " مراد ہونے کی صورت میں بشمول حوض کوثر ، تمام ہی نعمتیں اور بھلائیاں اس میں شامل ہو جائیں گی اس طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام کے مذکورہ جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو " کوثر " عطا کیا ہے اسی میں کی ایک چیز یہ " حوض کوثر " ہے !بعض مفسرین نے " کوثر " کی مراد " اولاد اور علماء امت " لکھا ہے ، لیکن یہ قول بھی " خیر کثیر " کے قول کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں ( یعنی اولاد اور علماء امت ) بھی " خیر کثیر " ہی میں داخل ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں