مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حوض اور شفاعت کا بیان ۔ حدیث 144

شفاعت سے تمام انبیاء کا انکار

راوی:

وعن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يحبس المؤمنون يوم القيامة حتى يهموا بذلك فيقولون لو استشفعنا إلى ربنا فيريحنا من مكاننا فيأتون آدم فيقولون أنت آدم أبو الناس خلقك الله بيده وأسكنك جنته وأسجد لك ملائكته وعلمك أسماء كل شيء اشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا . فيقول لست هناكم . ويذكر خطيئته التي أصاب أكله من الشجرة وقد نهي عنها ولكن ائتوا نوحا أول نبي بعثه الله إلى أهل الأرض فيأتون نوحا فيقول لست هناكم ويذكر خطيئته التي أصاب سؤاله ربه بغير علم ولكن ائتوا إبراهيم خليل الرحمن . قال فيأتون إبراهيم فيقول إني لست هناكم ويذكر ثلاث كذبات كذبهن ولكن ائتوا موسى عبدا آتاه الله التوراة وكلمه وقربه نجيا . قال فيأتون موسى فيقول إني لست هناكم ويذكر خطيئته التي أصاب قتله النفس ولكن ائتوا عيسى عبد الله ورسوله وروح الله وكلمته قال فيأتون عيسى فيقول لست هناكم ولكن ائتوا محمدا عبدا غفر الله له ماتقدم من ذنبه وما تأخر . قال فيأتوني فأستأذن على ربي في داره فيؤذن لي عليه فإذا رأيته وقعت ساجدا فيدعني ما شاء الله أن يدعني فيقول ارفع محمد وقل تسمع واشفع تشفع وسل تعطه . قال فأرفع رأسي فأثني على ربي بثناء تحميد يعلمنيه ثم أشفع فيحد لي حدا فأخرج فأخرجهم من النار وأدخلهم الجنة ثم أعود الثانية فأستأذن على ربي في داره . فيؤذن لي عليه فإذا رأيته وقعت ساجدا . فيدعني ما شاء الله أن يدعني ثم يقول ارفع محمد وقل تسمع واشفع تشفع وسل تعطه . قال فأرفع رأسي فأثني على ربي بثناء وتحميد يعلمنيه ثم أشفع فيحد لي حدا فأخرج فأخرجهم من النار وأدخلهم الجنة ثم أعود الثالثة فأستأذن على ربي في داره فيؤذي لي عليه فإذا رأيته وقعت ساجدا فيدعني ما شاء الله أن يدعني ثم يقول ارفع محمد وقل تسمع واشفع تشفع وسل تعطه . قال فأرفع رأسي فأثني على ربي بثناءوتحميد يعلمنيه ثم أشفع فيحد لي حدا فأخرج فأخرجهم من النار وأدخلهم الجنة حتى ما يبقى في النار إلا من قد حبسه القرآن أي وجب عليه الخلود ثم تلا هذه الآية ( عسى أن يبعثك الله مقاما محمودا )
قال وهذا المقام ا
لمحمود الذي وعده نبيكم متفق عليه . ( متفق عليه )

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ قیامت کے دن ( میدان حشر میں ) مؤمنین کو روک دیا جائے گا ( یعنی سب کو کسی ایک جگہ اس طرح محصور کر دیا جائے گا کہ کوئی شخص بھی کسی طرح کی نقل وحرکت نہیں کر سکے گا اور ہر شخص سکتے کی سی کیفیت میں ٹھہرا رہے گا ) یہاں تک کہ سارے لوگ اس ( محصور ہو جانے ) کی وجہ سے سخت فکر وتردد میں پڑجائیں گے ، پھر وہ آپس میں تذکرہ کریں گے کہ کاش ہمیں کوئی ایسا شخص مل جاتا جو ہمارے پروردگار سے ہماری شفاعت کرتا اور ہمیں اس سختی وپریشانی سے چھٹکارا دلاتا اور پھر ( کچھ لوگ سب کی نمائندگی کرتے ہوئے ) حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ آدم علیہ السلام ہیں ، تمام لوگوں کے باپ ، آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ( بلا کسی واسطہ وسیلہ کے ) اپنے ہاتھ سے ( یعنی اپنی قدرت کاملہ سے ) پیدا کیا ، آپ علیہ السلام کو جنت کی سکونت عطا فرمائی اپنے فرشتوں سے ( تحیہ کا ) سجدہ آپ علیہ السلام کو کرایا ، اور آپ علیہ السلام کو ہر چیز کے نام سکھائے : براہ کرام آپ علیہ السلام اپنے پروردگار سے ( کہ جس نے آپ علیہ السلام کو اتنی زیادہ فضیلتیں اور اعزاز بخشے ہیں ) ہماری سفارش کر دیجئے کہ وہ ہم کو اس ( سخت ہولناک اور پریشان کن ) جگہ سے نکال کر راحت واطمینان بخشے حضرت آدم علیہ السلام ( یہ سن کر کہیں گے ) کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ( یعنی میں یہ مرتبہ ( درجہ نہیں رکھتا کہ آج کے دن بارگاہ کبریائی میں شفاعت کرنے کا حوصلہ کروں ) پھر حضرت آدم علیہ السلام اپنی اس لغزش کا ذکر کریں گے جو انہوں نے ( گیہوں کا ) درخت کھانے کی صورت میں کی تھی درآنحالیکہ ان کو اس درخت کے قریب جانے سے بھی منع کر دیا گیا تھا ، ( اس کے بعد وہ کہیں گے کہ ) تم لوگوں کو نوح علیہ السلام کے پاس جانا چاہئے ( وہ تمہاری شفاعت کر سکتے ہیں ) کیونکہ وہ پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا تھا ) وہ لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے ( اور ان سے شفاعت کے لئے درخواست کریں گے ) حضرت نوح علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ! اور وہ اپنی اس لغزش کا ذکر کریں گے جو انہوں نے بے جانے بوجھے اللہ تعالیٰ سے ( اپنے بیٹھے کو غرق ہونے سے بچانے کی درخواست کرنے کی صورت میں کی تھی ( پھر وہ مشورہ دیں گے کہ ) تم لوگوں کو ابراہیم علیہ السلام کے پاس " جو اللہ تعالیٰ کے خلیل ( دوست ہیں ، جانا چاہئے ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ ( یہ سن کر ) ابراہیم خلیل اللہ کے پاس آئیں گے ( اور ان سے شفاعت کی درخواست کریں گے ) حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں اور وہ دنیا میں تین مرتبہ اپنے جھوٹ بولنے کا ذکر کریں گے (پھر وہ مشورہ دیں گے کہ ) تم لوگ موسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے ایسے بندے ہیں جن کو اللہ نے ( اپنی عظیم الشان کتاب ) توریت عطا کی ) اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کو ان کا تابع بنایا ، اور جن کو اللہ نے براہ راست اپنی ہمکلامی کے شرف سے نوازا اور ان کو اپنا کمال قرب عطا فرما کر اپنا محرم اسرار بنایا ۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ ( یہ سن کر ) حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے ( اور ان سے شفاعت کے لئے درخواست کریں گے ) حضرت موسی علیہ السلام ان کو جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ! اور وہ اپنی اس لغزش کا ذکر کریں گے جو ایک قبطی کو قتل کرنے کی صورت میں سرزد ہوگئی تھی ( یعنی انہوں نے طیش میں آکر ایک قبطی کو مکا مار دیا تھا جس سے اس کا کام تمام ہوگیا تھا ۔ پھر وہ مشورہ دیں گے کہ تمہیں عیسی علیہ السلام کے پاس جانا چائے جو اللہ کے بندے اور رسول علیہ السلام ہیں ۔ وہ سراسر روحانی ہیں ( کہ جسمانی مادہ کے بغیر محض اللہ کی قدرت سے پیدا ہوئے تھے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ ( یہ سن کر ) حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آئینگے ( اور ان سے شفاعت کے لئے کہیں گے ) حضرت عیسی علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ! البتہ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جو اللہ کے ایسے بندے ہیں جن کے اگلے پچھلے سارے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیئے ہیں ( یقینا وہی تم لوگوں کی شفاعت کریں گے )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تب لوگ ( شفاعت کی درخواست لے کر ) میرے پاس آئیں گے اور میں ( ان کی شفاعت کے لئے تیار ہوجاؤں گا اور مقصد کی خاطر ) در رب العزت پہنچ کر اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا ، اللہ تعالیٰ مجھے اپنی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت مرحمت فرمائے گا ! میں جب اس کے حضور میں پہنچ کر اس کو دیکھوں گا تو اس کی ہیبت وخوف کے مارے اور اس کی تعظیم کرنے کے لئے ) سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ جتنا عرصہ مناسب سمجھے گا اتنے عرصہ کے لئے مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! سر اٹھاؤ ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو، تمہاری بات سنی جائے گی ، تم ( جس کے حق میں چاہو ) شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی ، اس کے بعد میں ( درگاہ رب العزت سے ) باہر آؤں گا اور اس ( متعینہ ) جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا پھر ( دوسری جماعتوں کے حق میں شفاعت کرنے کے لئے ) میں دوبارہ در رب العزت پر حاضر ہو کر اس کی خدمت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا مجھے اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت عطا کی جائے گی اور جب میں اس کے حضور میں پہنچ کر اس کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑونگا اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہئے گا مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا ، پھر فرمائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو ، تمہاری بات سنی جائے گی ، شفاعت کے ساتھ کہ جو پروردگار مجھے سکھلائے گا اس کی حمد وثنا بیان کروں گا پھر میں شفاعت کروں گا اور میرے لئے شفاعت کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی ، اس کے بعد میں ( درگاہ رب العزت سے ) باہر آؤں گا اور اس متعینہ ) جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا اور پھر میں تیسری مرتبہ بارگاہ رب العزت پر حاضر ہو کر اس کی خدمت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا ، مجھے اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت عطا کی جائے گی اور جب میں پروردگار کے حضور پہنچ کر اس کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا ، اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا ۔ پھر فرمائے گا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو ، تمہاری بات سنی جائے گی ۔ شفاعت کرو میں قبول کروں گا اور مانگو میں دوں گا ۔ " ( یہ سن کر ) میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اس حمد وتعریف کے ساتھ کہ جو پروردگار مجھے سکھلائے گا اس کی حمد وثنا بیان کروں گا پھر میں شفاعت کروں گا اور میرے لئے شفاعت کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی ۔ اس کے بعد میں ( درگاہ رب العزت سے ) باہر آؤں گا اور اس ( متعینہ ) جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا ، یہاں تک کہ دوزخ میں ان کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہ جائے گا جن کو قرآن نے روکا ہوگا ( یعنی اس آخری شفاعت کے بعد دوزخ میں وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن کے بارے میں قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ، چنانچہ حدیث کے اس جملہ کی وضاحت حضرت انس کے نیچے کے روای حضرت قتادہ جو جلیل القدر تابعی ہیں ان الفاظ میں کی ہے کہ ) اس کا مطلب یہ ہے کہ بس وہ لوگ دوزخ میں باقی رہ جائیں گے جو ( قرآن کے حکم کے بموجب ) ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب دوزخ کے مستوجب قرار پا چکے ہیں ( اور وہ کفار ہیں ) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (یا حضرت انس یا حضرت قتادہ نے اس بات کو مستند کرنے کے لئے ) قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی (عَسٰ ي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) 17۔ الاسراء : 79) امید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود میں جگہ دے گا ۔ اور پھر ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا حضرت انس نے یا حضرت قتادہ نے ) یہ فرمایا کہ ( یہی وہ مقام محمود ہے ، جس کا وعدہ اللہ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
" وہ پہلے نبی ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ۔۔ الخ۔ کے سلسلہ میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے تین نبی حضرت آدم علیہ السلام ، حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام دنیا میں آچکے تھے ۔ تو حضرت نوح علیہ السلام دنیا والوں کی طرف آنے والے پہلے نبی کیونکر ہوئے !؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ پہلے تینوں نبی جب دنیا میں آئے تو تمام روئے زمین صرف اہل کفر کی آماجگاہ نہیں تھی بلکہ اس دنیا میں اہل ایمان بھی موجود تھے اور گویا ان تینوں نبیوں کے مخاطب اہل ایمان اور اہل کفر دونوں تھے ، ان کے برخلاف جب جضرت نوح علیہ السلام دنیا والوں میں آئے تو تمام روئے زمین پر صرف کافر ہی کافر تھے اہل ایمان کا وجود نہیں تھا ، اس اعتبار سے حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں آنے والے پہلے نبی ہیں جن کا واسطہ صرف کافروں سے تھا ، اس اشکال کے کچھ اور جواب بھی علماء نے لکھے ہیں لیکن وہ زیادہ مضبوط نہیں ہیں ۔
اس مقام پر خاص نکتہ کی طرف اشارہ کردینا ضروری ہے یہ جو فرمایا گیا ہے کہ جب تمام لوگ ابتدائی اور سب سے پہلے حضرت آدم کے پاس اور پھر یکے بعد دیگرے ایک ایک نبی کے پاس جائیں گے یہاں تک کہ آخر میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی درخواست قبول کرلیں گے تو سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوگا کہ وہی ان لوگوں کے دلوں میں کسی شفاعت کرنے والے کے پاس جانے کا خیال ڈالے گا اور پہلا خیال حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں ہوگا کہ وہی ان کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال ڈال دے اور وہ ایک ایک نبی کے پاس جانے کے بجائے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر شفاعت کی درخواست کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت کر دیں تو یہ احتمال باقی رہے گا کہ دوسرے بھی شفاعت کرنے جرأت رکھتے ہوں گے اور اگر کسی اور نبی سے بھی شفاعت کی درخواست کی جاتی تو وہ بھی شفاعت کر دیتا ، لیکن جب وہ لوگ ایک ایک نبی کے پاس جا کر ان سے شفاعت کی دراخوست کریں گے اور ہر ایک شفاعت سے انکار کر دے گا اور پھر آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی جائے گی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبول کرکے ان کا مقصد پورا کر دیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے عالی مرتبہ ہونا اور بارگاہ کبریائی میں کمال قرب رکھنا واضح طور پر ثابت ہو جائے گا اور ہر ایک پر یہ عیاں ہو جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ ودرجہ کا کوئی اور نہیں ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق ، حتی کہ انسانوں فرشتوں اور تمام انبیاء تک پر فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ شفاعت جو اتنا بڑا درجہ اور اتنا اہم کام ہے کہ کوئی بھی ، خواہ وہ فرشتہ یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو اس کی جرأت وحوصلہ نہیں کرے گا صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی جس لغزش کا ذکر کیا ، اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت نوح کو مسلسل جھٹلانے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی سزا میں دنیا والوں پر پانی کا عذاب نازل ہوا اور تمام روئے زمین پر ہلاکت خیز پانی ہی پانی پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اپنے ماننے والوں کی ایک مختصر تعداد کو لے کر ایک کشتی میں بیٹھ گئے تاکہ وہ سب طوفانی سیلاب کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہیں ، اس وقت انہوں نے اپنے بیٹے کو جو کافروں کے ساتھ تھا ، بلایا اور کہا کہ کافروں کے ساتھ وہ بھی غرق ہوگیا ، اس موقع پر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے اس بیٹے کے حق میں غرقابی سے نجات کی دعا مانگی تھے اور بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کیا تھا کہ۔
رب ان ابنی من اہلی وان وعدک الحق وانت احکم الحاکمین ۔
" میرے پروردگار ! میرا یہ بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے ، ( اس کو نجات دے ) بے شک آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے اور آپ احکم الحاکمین ہیں ۔"
(جاری)

یہ حدیث شیئر کریں